کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 78
سے عطا کردہ ہبہ قرار دیا گیا ہے، لہٰذا باپ کے لئے جائز ہے کہ وہ غلام کی مانند اپنے بیٹے کے مال پر قبضہ کرسکتا ہے۔ ان آیاتِ کریمہ سے ایسا موقف ثابت کرنے والوں کے استدلال کا جواب یوں دیا گیا ہے کہ ان آیات میں ہبہ سے مراد بڑھاپے میں وِلادت کا ہبہ ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا زکریا علیہ السلام پر احسان کیا، ملکیت اور غلامی کا ہبہ نہیں جیسا کہ اسی معنی میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے:﴿یَھَبُ لِمَنْ یَّشَائُ اِنَاثًا وَّیَھَبُ لِمَنْ یَّشَائُ الذُّکُوْر﴾ (الشوریٰ:۴۹) ’’وہ جسے چاہتا ہے، لڑکیاں دیتا اور جسے چاہتا ہے، لڑکے دیتا ہے۔‘‘
اس آیت ِکریمہ میں بھی ولادت کا ہبہ مراد ہے، اگرچہ بڑھاپا نہ بھی ہو، کیونکہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَیَجْعَلُ مَنْ یَّشَائُ عَقِیْمًا﴾ (الشوریٰ:۵۰)
’’اور جسے چاہتا ہے، بانجھ بنا دیتا ہے۔‘‘
3. ان کی مضبوط ترین دلیل حدیث ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم ((أنت ومالک لأبیک)) کے متعدد جوابات دیئے گئے ہیں :
ا) بعض نے اس حدیث کے معنی کی توجیہ کرتے ہوئے اس کی ایسی تفسیر کی ہے کہ اس حدیث ِنبوی اور اس مسئلہ کہ ’’باپ بلا ضرورت اپنے بیٹے کے مال کو اپنی ملکیت نہیں بناسکتا۔‘‘ کے دلائل کے درمیان جمع وتطبیق ممکن ہوسکے۔
ب)بعض نے اس حدیث کو منسوخ کہا ہے۔
ج) بعض نے اس حدیث کے عموم کو خاص کر دیا ہے۔
د) بعض نے اس حدیث کے ثبوت اور ضعف میں کلام کی ہے۔
ذیل میں ہر قول کے حاملین کا تذکرہ بالاختصار ملاحظہ فرمائیے:
أ) حدیث ((أنت ومالک لأبیک))کے معنی میں ذکر کردہ توجیہات
1. امام بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی سند کے ساتھ منذر بن زیاد الطائی سے روایت کیا ہے کہ ہمیں اسماعیل بن ابوخالد نے خبر دی، اُنہوں نے قیس بن ابوحازم رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے کہ میں امیرالمومنین سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر تھا کہ ایک آدمی نے ان سے کہا:
’’یا امیرالمومنین! میرا باپ چاہتا ہے کہ میرے سارے مال پر قبضہ کرلے اور اس کو تباہ وبرباد