کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 77
فقہ واجتہاد شیخ سائد بکداش
ترجمہ:حافظ محمد مصطفی راسخ
کیا والد بیٹے کا مال لے سکتا ہے؟
اقوالِ فقہا او ران کے دلائل کا تجزیہ وتبصرہ
دوسرے قول (مطلقاً جواز) کے دلائل کا جائزہ
1. سورۃ النور کی اس آیت: ﴿وَلَا عَلٰی اَنْفُسِکُمْ أنْ تَاْکُلُوْا مِنْ بُیُوْتِکُمْ…﴾ (النور:۶۱) سے یہ استدلال کرنا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے یہاں اولاد کے گھروں کا تذکرہ نہیں کیا جو اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ وہ گھر باپ دادا کے ہیں ۔‘‘ کا جواب امام قرطبی رحمہ اللہ کی زبانی ملاحظہ فرمائیے :
’’اس آیت ِکریمہ سے اللہ تعالیٰ کی مراد یہ ہے کہ تم اپنے گھروں سے بھی کھا سکتے ہو جن گھروں میں تمہارے اہل اور اولاد رہتے ہیں ، پس وہ گھر اہل اور اولاد کے ہیں ۔‘‘ (الجامع لا َحکام القرآن:۱۲/۳۱۴)
ابھی تک ہم دیکھتے ہیں کہ بیٹے اپنے والدین کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہائش پذیر ہیں جو ان کے باپ کا گھر ہے تو یہاں اس آیت ِکریمہ میں تغلیباً باپ دادا کے گھروں کو ذکر کیا گیا ہے، جو اس امر پر دلالت نہیں کرتا کہ باپ اپنے بیٹے کے مال کا مالک ہے۔ واللہ اعلم!
امام قرطبی رحمہ اللہ نحاس رحمہ اللہ وغیرہ سے نقل کرتے ہیں کہ اس آیت ِکریمہ میں اولاد کے گھروں کا تذکرہ نہ ہونے کی علت سے ان گھروں کوباپ دادا کی ملکیت بنا دینا کتاب اللہ کے خلاف فیصلہ ہے۔ (ایضاً:۱۲/۳۱۲)
اس آیت ِکریمہ سے استدلال کرنے والوں کو جواب یوں بھی دیا جاسکتا ہے کہ یہ آیت منسوخ ہے جیسا کہ امام قرطبی رحمہ اللہ وغیرہ سے منقول ہے۔ (ایضاً)
2. قرآنِ مجید کی متعدد آیاتِ کریمہ میں اولاد کو والدین کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف