کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 76
تمام روایات ردّ کردی جائیں گی خواہ ان کی سند کتنی ہی صحیح ہو۔ ان اُصولوں کی ایجاد کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سی متفقہ صحیح احادیث کو بھی ہدفِ تنقید بنا لیاگیا جیسے صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی بعض احادیث وغیرہ حالانکہ ان کی صحت پر جمہور و محدثین کا اتفاق تھا۔ حقیقت ِحال یہ ہے کہ محدثین نے تحقیق سند کے ساتھ ساتھ تحقیق متن پر بھی پھرپور توجہ دی ہے جیسا کہ صحیح حدیث کی تعریف میں علت و شذوذ کا ذکر اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ کیونکہ ان دونوں شرائط کا تعلق براہِ راست متن کے ساتھ ہے۔ علاوہ ازیں ان متجددین حضرات نے جن روایات کو تحقیق متن کے جدید اُصولوں کی بنیاد بنایاہے، ان میں سے اکثر ضعیف اور من گھڑت ہیں اور جن اقوالِ محدثین کو تائیدمیں پیش کیا ہے، ان کی حیثیت قبول و ردّ حدیث کے سلسلے میں قواعد ِکلیہ کی نہیں بلکہ محض علامات اور آثار و قرائن کی ہے۔ اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ محدثین کبھی بھی موضوع روایت کی تعریف میں یہ بات ذکر نہیں فرماتے کہ جو روایت قرآن و سنت یا عقل کے خلاف ہوگی وہ موضوع ہے بلکہ وہ ہمیشہ یہی ذکر کرتے ہیں کہ ہمیں روایت کی سند میں کوئی کاذب یا واضع راوی پایا جائے، وہ موضوع ہے۔ بالفاظِ دیگر محدثین کے ہاں تحقیق حدیث کی اصل بنیاد سند ہی ہے اور تحقیق متن کے سلسلے میں جو اُنہوں نے علت و شذوذ کا ذکر کیا ہے، نتیجے کے اعتبار سے ان کا تعلق بھی سند کے ساتھ ہی ہے، کیونکہ علت وہم الراوی اور شذوذ مخالفت ِثقات کا نام ہے اوریہ دونوں چیزیں رواۃِ سند سے ہی متعلقہ ہیں ۔ یہاں اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ محدثین نے جو تحقیق حدیث کے سلسلے میں سند کو ہی بنیادبنایا ہے تو اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ اُنہوں نے اس سلسلے میں عقلی تقاضوں کو ملحوظ نہیں رکھا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اعتراض محض علم حدیث سے عدمِ واقفیت کا نتیجہ ہے ورنہ محدثین نے روایات کو پرکھنے کے لئے عقل کو بھی ملحوظ رکھا ہے جس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ محدثین نے صحیح حدیث کی جو اوّلین شرط ’عدالت‘ بیان کی ہے، اس کے متحقق ہونے کی ایک شرط عقل بھی ہے۔نیز دوسری شرط ’ضبط‘ کا تعلق بھی عقل و فہم اور غوروفکر کے ساتھ ہی ہے۔ لہٰذا فی الواقع ایسا ہے کہ محدثین کا کام جامع ہے اور کسی بھی حدیث کو پرکھنے کے لئے کافی ہے۔ اس لئے ہمیشہ اس کو پیش نظر رکھنا ہی راہ ِصواب ہے اور ان ائمہ محدثین کے طریق سے انحراف قرآنی آیت﴿غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤمِنِیْنَ﴾ کے مصداق گمراہی میں مبتلا ہونے کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں راہِ ضلالت سے بچائے اور راہ ِ صواب پر چلائی۔ آمین!