کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 75
ہو، سہو و نسیان اور تساہل کاشکار نہ ہو اور پورے غوروفکر اور توجہ کے ساتھ روایت سن کراسے من وعن آگے بیان کردے۔ یہی وہ اساسی شرائط ہیں جن کی بنا پر کسی راوی کے مقبول یا غیر مقبول ہونے کا حکم لگایا جاتاہے۔ علاوہ ازیں احادیث پر صحت و سقم کا حکم لگاتے وقت بھی محدثین نے عقل کو ملحوظ رکھا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے وضع حدیث کی علامات میں یہ بھی ذکر فرمایا ہے کہ روایت عقل عام کے خلاف نہ ہو۔وغیرہ وغیرہ
بالفاظِ دیگر ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ محدثین نے چار مقامات پر بطورِ خاص عقل کو ملحوظ رکھا ہے:
1. تحمل حدیث کے وقت 2. اداے حدیث کے وقت
3. رواۃ پر حکم لگاتے وقت 4. اور احادیث پر حکم لگاتے وقت
یہی بات ڈاکٹر مصطفی اعظمی نے ذکر فرمائی ہے۔[1]
یہاں یہ بات واضح رہے کہ عقل کو ملحوظ رکھنے کامطلب محض یہی ہے کہ جو اوپر بیان کردیا گیاہے۔ علاوہ ازیں اس سے مراد یہ ہرگز نہیں کہ محدثین نے عقل کو ہی قرآن و سنت پر حاکم بنایا ہوا تھا۔ اور صرف وہی روایت قبول کرتے جو اپنی ذاتی عقل کے مطابق ہوتی (جیساکہ آج کل کے متجددین کانظریہ ہے) بلکہ فی الواقع ایسا ہے کہ محدثین عقل کو ملحوظ تو رکھتے تھے مگر اسے قرآن و سنت کے تابع رکھ کر استعمال کرتے تھے، ان کے ہاں عقل کو حاکمیت حاصل نہیں البتہ شریعت کے احکام کو سمجھنے میں وہ عقل کوبھرپور طریقے سے استعما ل کرتے تھے۔
خلاصہ کلام :انکار ِ حدیث کا آغاز اگرچہ دوسری صدی ہجری سے ہی ہوگیا تھا، لیکن اس فتنہ نے پوری آب و تاب اور سحر آفرینی کے ساتھ جس دور میں عوام الناس کو متاثر کیا، وہ تیرہویں صدی ہجری کا دور ہے کیونکہ اس میں برصغیر پر مغربی تسلط کے باعث یہاں اس فتنہ کے پنپنے کے محرکات دوسری صدی ہجری کی بہ نسبت کہیں زیادہ تھے۔ بہرحال ہر دور کی طرح اس دور میں بھی اسے علماے حق کی طرف سے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا جس کے نتیجے میں کلیۃً انکارِ حدیث کی روش ایک حد تک ختم ہوگئی، بعدازاں اس فتنہ نے ایک نئے روپ میں رونما ہوکر لوگوں کوگمراہ کرنا شروع کیا۔ جس کی بنیاد اس بات پر رکھی گئی کہ محدثین کا کام ناکافی ہے اور اُنہوں نے تحقیق سند کے حوالے سے تو گراں قدر خدمات انجام دی ہیں مگر تحقیق متن پر کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ اس بنیادپر تحقیق حدیث کے بہت سے ایسے جدید اُصول وضع کئے گئے جو متقدمین میں سے کسی نے بھی بیان نہیں کئے تھے۔ اور اگر اس ضمن میں کچھ بیان بھی کیا تھا کہ اس کا مقصد کچھ اور تھا جیسے خلافِ قرآن، خلاف ِ سنت یا عقلِ عام کے خلاف