کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 74
سند کی اسی اہمیت کانتیجہ ہے کہ محدثین کے نزدیک تحقیق حدیث کی اساسی شرائط تین ہی ہیں :’’عدل، ضبط اور اتصال پسند‘‘[1] اور اُنہوں نے جن دو شرائط (شذوذ و علت) کاذکر تحقیق متن کے حوالے سے کیاہے، وہ بھی انتہاے تحقیق کے اعتبار سے درحقیقت سند اور رواۃ کی طرف ہی راجع ہوتی ہیں کیونکہ شذوذ مخالفت ِثقات اور علت ِوہم الراوی کا نام ہے۔ لہٰذا شذوذ و علت دونوں کا تعلق رواۃ کے ساتھ ہوااور یہ معلوم ہے کہ رواۃ کا تعلق سند کے ساتھ ہی ہوتاہے۔ علاوہ ازیں اس موقف کی مؤید یہ بات بھی ہے کہ یہ دونوں شرائط اُن تینوں شرائط میں ہی شامل ہیں جو محدثین نے تحقیق سند کے حوالے سے ذکر فرمائی ہیں (یعنی عدل، ضبط اور اتصالِ سند) یہی باعث ہے کہ محدثین ضبط وجرح کرنے والے اُمور میں کثرتِ اوہام اور شذوذ کا بھی ذکر فرماتے ہیں ۔[2] البتہ محدثین نے علت و شذوذ کو جو الگ سے ذکر کیا ہے تو اس سے مقصود سواے اس کے اور کچھ نہیں کہ تحقیقِ متن سے متعلقہ اُمور پر قدرے بہتر انداز میں توجہ دی جا سکے۔ معلوم ہوا کہ محدثین کے نزدیک تحقیق حدیث کی اصل بنیاد سند ہی ہے۔ لہٰذا اب اگر کوئی سند سے قطع نظر متن کی تحقیق کا دروازہ کھولنے کی کوشش کرتا ہے تو یقینا وہ اس محدثانہ طریق سے بدظنی کا مظاہرہ کررہا ہے جس سے بدظنی کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ کے ذریعے ﴿وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی﴾[3] گمراہی کی بنیاد قرار دیا ہے۔ محدثین اور عقلی تقاضے یہاں یہ وضاحت بھی مناسب معلوم ہوتی ہے کہ سند کواہمیت دینے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ محدثین نے تحقیق حدیث کے دوران عقل کو ملحوظ ہی نہیں رکھا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اُنہوں نے عقل کوبھی خصوصی اہمیت دی ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ کتب ِاُصول میں صحت ِحدیث کی اوّلین شرط’عدالت‘ مکتوب ہے اور عدالت کے متحقق ہونے کے لئے جن شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، ان میں سے ایک عقل بھی ہے۔ جس کامفہوم یہ ہے کہ صرف اس راوی کی روایت قبول کی جائے گی جو روایت لیتے وقت غفلت، سستی اور لاپرواہی جیسے رذائل سے کنارہ کش ہوتے ہوئے مکمل عقل و فکر سے کام لینے والاہو اور ہر حدیث کو عقل سلیم کے سانچے میں پرکھنے کے بعد ہی قبول کرے۔ علاوہ ازیں ضبط ِراوی سے بھی یہی مراد ہے کہ راوی بیدار مغز