کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 73
نے ’منکر‘ اور بہت زیادہ ’ضعیف‘ قرار دیا ہے۔[1]
3. إنھا تکون بعدي رواۃ یرون عني الحدیث فأعرضوا حدیثھم علی القرآن)) [2]
’’میرے بعد کچھ ایسے رواۃ ہوں گے جو میری طرف منسوب کرکے حدیث بیان کریں گے تو تم ان کی حدیث قرآن پر پیش کرنا۔‘‘
امام دارقطنی رحمہ اللہ ، امام ابن حزم رحمہ اللہ اور شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ضعیف قرار دیاہے۔[3]
سند سے قطع نظر متن کی تحقیق
تحقیق حدیث کے سلسلے میں محدثین کے ہاں اصل بنیاد سند ہی ہے۔ اس وجہ سے ان کے نزدیک سند کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ چنانچہ امام ابن مبارک رحمہ اللہ کا قول معروف ہے کہ
الإسناد من الدین ولولا الإسناد لقال من شاء ما شائ[4]
’’اسناد دین کا حصہ ہے۔ اگر اسناد نہ ہوتی تو کوئی جو چاہتا، کہتاپھرتا۔‘‘
امام سفیان ثوری رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ
الإسناد سلاح المومن فإذا لم یکن معہ سلاح فبأي شيء یقاتل[5]
’’اسناد مومن کاہتھیار ہے، اگر اس کے پاس ہتھیار ہی نہ ہو تو وہ کس چیز کے ساتھ جنگ کرے گا۔‘‘
اسی طرح امام شافعی رحمہ اللہ کاقول بھی نہایت اہم ہے کہ
مثل الذین یطلب الحدیث بلا إسناد کمثل حاطب لیل یعمل حزمۃ حطب وفیہ أفعٰی وھو لا یدري[6]
’’بلا سند حدیث طلب کرنے والے کی مثال رات کو لکڑیاں چننے والے اس شخص کی طرح جو لکڑیوں کی گٹھڑی اُٹھاتا ہے، لیکن یہ نہیں جانتا کہ اس میں ایک سانپ بھی چھپا ہوا ہے۔‘‘
[1] ایضاً،ص۳۸۸ تا۳۹۰