کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 72
عصر حاضر کے تجدد پسند حضرات قبول و ردّ حدیث کے نئے نئے اُصولوں کے طور پر پیش کررہے ہیں ان کی حیثیت محض علامات اور آثار و قرائن کی یہی ہے۔ جدید اُصولوں کی بنیاد ’ضعیف روایات ‘ ان متجددین نے سابقہ اَوراق میں ذکر کردہ چند اقوال محدثین کے علاوہ جن روایات پر اپنے افکارو نظریات کی بنیاد رکھی ہے، ان میں سے اکثر ضعیف اور من گھڑت ہیں ۔ چند ایک ملاحظہ فرمائیے ۔ یہ فرمان نبوی عموماً بیان کیا جاتا ہے کہ 1. سیأتیکم عني أحادیث مختلفۃ فما جاء کم موافـقًا لکتاب اللہ وسنتي فھو مني وما جاء کم مخالفًا لکتاب اللہ وسنـتي فلیس مني[1] ’’عنقریب تمہارے پاس میری طرف منسوب مختلف احادیث آئیں گی تو جو کتاب اللہ اور میری سنت کے موافق ہو، وہ تو میری طرف سے ہے اور جو کتاب اللہ اور میری سنت کے مخالف ہو وہ میری طرف سے نہیں ۔‘‘ اس روایت کو امام ابن عدی رحمہ اللہ ، امام دارقطنی رحمہ اللہ ، امام شافعی رحمہ اللہ ، امام عجلونی رحمہ اللہ ، امام خطابی رحمہ اللہ ، حافظ ابن حجرعسقلانی رحمہ اللہ ، امام شوکانی رحمہ اللہ اور شیخ البانی رحمہ اللہ نے سخت ضعیف اور من گھڑت قرار دیاہے۔[2] 2. ما حدثتم عني مما تعرفونہ فخذوہ وما حدثـتم عني مما تنکرونہ فلا تأخذوا بہ)) [3] ’’اگر تمہیں میری طرف منسوب کرکے کوئی ایسی روایت بیان کی جائے جواس معروف کے مطابق ہو جس سے تم آشنا ہو تو اسے قبول کرلو اور اگر کوئی ایسی روایت بیان کی جائے جسے تم منکر سمجھو، تو اسے قبول نہ کرو۔‘‘ اس روایت کو امام ابن عدی رحمہ اللہ ، امام ذہبی رحمہ اللہ ، امام ابن رجب رحمہ اللہ ، امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ اور شیخ البانی رحمہ اللہ