کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 71
’’ہر وہ حدیث جو فساد، ظلم، بے مقصد اشیا، باطل کی مدح، حق کی خدمت یا اس جیسی کسی چیز پر مشتمل ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بری ہیں۔‘‘
یہ اور ان جیسے دیگر اقوالِ محدثین محض معرفت وضع الحدیث اور وضع حدیث کے قرائن وآثار کے قبیل سے بیان ہوئے ہیں ۔ ان سے مقصود یہ ہرگز نہیں کہ کوئی روایت کب موضوع یا ضعیف ہوتی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ محدثین جب بھی موضوع حدیث کی تعریف کرتے ہیں تو یہی بیان کرتے ہیں کہ ایسی احادیث جس میں کوئی واضع یاکاذب راوی پایاجائے، ’موضوع‘ کہلاتی ہے۔[1]
حقیقت یہ ہے کہ محدثین کرام نے حدیث میں صحت وضعف کی جانچ پرکھ کے لئے واضح اصولوں کے ساتھ بعض علامتیں اور امکانات کا تذکرہ بھی کیا ہے، جنہیں حدیث کا طالب علم ملحوظ رکھ کر ضعیف حدیث کی پہچان کرسکتا ہے۔ چنانچہ محدثین نے ایک عمومی جائزے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ضعیف اور موضوع روایات کے مردود ہونے کی بنیاد اگرچہ ضعیف اورکاذب راوی ہی ہوتا ہے مگر ایسی تمام روایات کے متون میں بھی کچھ علامات پائی جاتی ہیں جن سے وضع حدیث کااشارہ مل جاتا ہے۔ لہٰذا اُنہوں نے ان علامات کو بھی ذکر کرنا شروع کردیا۔یہی باعث ہے کہ اُنہوں نے یہ علامات قبول و رد حدیث کے قواعد ِکلیہ کے طور پر نہیں بلکہ وضع حدیث کی معرفت کے طور پر ذکر کی ہیں ۔ جیساکہ علامہ جمال الدین قاسمی رحمہ اللہ معرفۃ الوضع والحامل علیہ کے عنوان کے تحت رقم طراز ہیں کہ
’’ذکر المحدثون أمورًا کلیۃ یعرف بھا کون الحدیث موضوعا… ‘‘[2]
امام سخاوی رحمہ اللہ نے حافظ عراقی کی یہ عبارت نقل فرمائی ہے کہ
’’یعرف الوضع بالإقرار وما نزل منزلتہ وربما یعرف بالرکۃ…‘‘ [3]
اسی طرح حافظ ابن صلاح رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ
’’وقد یفھمون الوضع من قرینۃ حا ل الراوي أو المروي… ‘‘[4]
درج بالا عبارتیں اس بات کی توضیح کے لئے یقینا کافی ہیں کہ ائمہ محدثین کے جو اَقوال