کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 70
متجددین کے اُصولوں کی حقیقت ہرچند کہ یہ لوگ اپنے اُصولوں کی تائید میں ائمہ محدثین کے ہی مختلف اقوال نقل کرتے ہیں ، لیکن دراصل یہ ائمہ محدثین کی عبارتوں اور موقف کا استحصال ہے۔ کیونکہ ان عبارتوں سے محدثین کی مراد اور ہے جبکہ متجددین کی مراد بالکل مختلف ہے۔ دونوں کے ہاں مختلف علامتوں اور امراض کی حیثیت او رمقام ومرتبہ مختلف ہے۔ چنانچہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان اقوال کی حیثیت محدثانہ اُصولوں سے ٹکراؤ یا ان کے نقص کی تکمیل کی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ محدثین نے جو اَقوال وضع حدیث کی علامات کے بطور بیان کئے تھے، ان متجدد حضرات نے انہیں اُصولی حیثیت دے دی ہے اور انہی کو بنیاد بنا کر متفقہ طور پر صحیح سند احادیث کو بھی ردّ کرنا شروع کردیاہے۔ اس نوعیت کے چند اقوالِ محدثین پیش خدمت ہیں : 1. خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ ولا یقبل خبر الواحد في منافاۃ حکم العقل وحکم القرآن الثابت المحکم والسنۃ المعلومۃ والفعل الجاري مجرٰی السنۃ وکل دلیل مقطوع بہ[1] ’’جب خبر واحد عقل کے فیصلے، قرآن کے ثابت اور محکم حکم، سنت ِ معلومہ، سنت کی طرح جاری عمل یا دلیل قطعی کے خلاف آجائے تو وہ غیر مقبول ہوگی۔‘‘ 2. امام ابن جوزی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ کل حدیث رأیتہ یخالف المعقول أو یناقض الأصول فاعلم أنہ موضوع[2] ’’ہر وہ حدیث جسے آپ عقل یااُصول کے خلاف پائیں تو یہ جان لیں کہ وہ موضوع ہے‘‘ 3. امام ابن قیم رحمہ اللہ الجوزیہ نے نقل فرمایا ہے کہ کل حدیث یشتمل علی فساد أو ظلم أو عبث أو مدح باطل أو ذم حق أو نحو ذلک فرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منہ بريئ۔[3]