کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 69
میں سے پہلی تینوں کاتعلق تو سند کے ساتھ ہے (لیکن یہ یاد رہے کہ چونکہ مقصود متن ہوتا ہے اور سند محض اس تک پہنچنے کاایک ذریعہ ہی ہوتی ہے، لہٰذا یہ شرائط بھی نتیجۃً تحقیق متن پر ہی منتج ہوتی ہیں ) تاہم آخری دونوں شرائط کا تعلق براہِ راست متن کے ساتھ ہے۔ چنانچہ امام سخاوی رحمہ اللہ ’ شاذ‘ حدیث کی تعریف میں رقم طراز ہیں کہ ما یخالف الراوي الثقۃ فیہ بالزیادۃ أو النقص في السند أو في المتن الملأ أي الجماعۃ الثقات من الناس بحیث لا یمکن الجمع بینھما[1] ’’شاذ روایت وہ ہوتی ہے جس میں ایک ثقہ راوی الفاظِ حدیث کی کمی یا زیادتی میں ثقہ راویوں کی ایک جماعت کی مخالفت کرے جبکہ دونوں میں جمع و توفیق بھی ممکن نہ ہو۔ یہ مخالفت بعض اوقات سندمیں اور بعض اوقات متن میں ہوتی ہے۔‘‘ ’معلول‘ روایت کی تعریف میں امام حاکم رحمہ اللہ ذکر فرماتے ہیں کہ فإن المعلول ما یوقف علی علتہ أنہ دخل حدیثًا في حدیث أو وھم فیہ راو أو أرسلہ واحد فوصلہ واھم[2] ’’معلول روایت وہ ہوتی ہے جس کی علت کے بارے میں یہ معلوم ہوجائے کہ اس میں راوی نے ایک حدیث کو دوسری حدیث میں داخل کردیاہے یااس میں راوی کو وہم ہوگیا ہے یا ایک راوی نے اسے مرسل بیان کیا ہے جبکہ وہم میں مبتلا ہونے والااسے موصول بیان کررہاہے۔‘‘ ان تعریفات سے معلوم ہوا کہ صحیح حدیث کی تعریف میں محدثین نے جو آخری دو شرائط (عدمِ علت و عدمِ شذوذ) ذکر کی ہیں ان کا تعلق متن کے ساتھ ہے، اگرچہ بعض اوقات ان کا تعلق سند کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ تحقیق حدیث کے حوالے سے محدثین نے سند و متن دونوں کواہمیت دی ہے اور دونوں کے جامع اُصول مرتب فرمائے ہیں جو بعد کے تمام اَدوار کے لئے یقینا کافی شافی ہیں ۔باوجود اس کے کہ محدثین کی ایک جماعت اِنہی اصولوں کو کافی خیال کرتے ہوئے ان پر کاربند رہی ہے اور کچھ تجدد پسند حضرات نے محدثانہ تحقیق متن کے اُصولوں پر مزیدچند اصولوں کا اضافہ کرکے ائمہ سلف سے انحراف کی راہ اختیار کی ہے۔
[1] کنیزفاطمہ،اسلامی نظام عدل کی روشنی میں پاکستان کے عدالتی نظام کا تحقیقی مطالعہ(مقالہ ڈاکٹریٹ شعبہ معارف اسلامیہ، جامعہ کراچی۲۰۰۵ء)ص۳۸۶،۳۸۷