کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 68
ہوئی اور ایسے نئے نئے طریقوں سے ردّ ِحدیث کا دروازہ کھولاگیا کہ احادیث کی تردید بھی ہوجائے اور اس کا احساس تک نہ ہو۔ چنانچہ ایک نعرہ یہ لگایاگیا کہ محدثین کا کام غیر جامع اور ناکافی ہے۔ محدثین کاکام غیرجامع اور ناکافی ہے! اس ضمن میں قبول و ردّ حدیث کے نئے نئے اصول وضع کئے گئے جو متقدم محدثین میں سے کسی نے بھی بیان نہیں کئے تھے جیسے کہ ٭ جو روایت نص قرآنی کے خلاف ہو، وہ مردود ہوگی۔ ٭ جوروایت سنت ِ ثابتہ کے خلاف ہو، وہ مردود ہوگی۔ ٭ جو روایت عقل عام کے تقاضوں پرپوری نہ اُترے وہ مردود ہوگی وغیرہ وغیرہ، خواہ اس کی سند کتنی ہی صحیح ہو۔ بالفاظِ دیگر ان حضرات کے نزدیک محدثین نے تحقیق سند کے سلسلے میں تو بہت کوشش کی ہے، مگر تحقیقِ متن کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے درج بالاتحقیق متن کے اُصول وضع کرکے گویا محدثانہ کاوش کے اس نقص کی تکمیل کی کوشش کی ہے۔ محدثین اور تحقیقِ متن :یہ بات کہ محدثین نے متن کی تحقیق کو ملحوظ نہیں رکھا، کوئی عالمانہ بات نہیں ، کیونکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ چنانچہ جب وہ صحیح حدیث کی تعریف ذکر کرتے ہیں تو اس میں سند کے ساتھ ساتھ متن کی تحقیق کے اُصول بھی شامل کرتے ہیں ۔ محدثین کی ذکر کردہ صحیح حدیث کی تعریف ملاحظہ فرمائیے: أما الحدیث الصحیح فھو الحدیث المُسند الذي یتصل إسنادہ بنقل العدل الضابط إلی منتھاہ ولا یکون شاذًا ولامعللًا[1] ’’صحیح حدیث وہ ہے جس کی سند متصل ہو، اسے نقل کرنے والے عادل و ضابط ہوں اور وہ روایت شاذ و معلول نہ ہو۔‘‘ اس تعریف میں صحت ِحدیث کے لئے محدثین نے جن پانچ شرائط کا ذکر کیاہے، ان