کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 67
نے حدیث کا کھلا انکار کیا۔[1] انہوں نے نعوذ باللہ حدیث ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو لھو الحدیث قرار دیا۔[2] اور ’اہل قرآن‘ کے نام سے باقاعدہ ایک فرقے کی بنیاد رکھی۔[3]
عبداللہ چکڑالوی کے بعد مولوی احمد الدین امرتسری اور مولانا اسلم جیراجپوری اس فتنہ کے علم بردار بنے۔ بالآخر غلام احمد پرویز نے اس کی باگ دوڑ سنبھالی اور اسے ایک منظم مکتب ِفکر کی شکل دی اور اسے ضلالت کی انتہا تک پہنچا دیا۔[4]
ان حضرات کے علاوہ برصغیر میں تحریک انکارِ حدیث میں کسی نہ کسی طرح حصہ لینے والوں میں علامہ مشرقی، مستری محمدرمضان گوجرانوالہ، مجبوب شاہ، تمنا عمادی، قمر الدین قمر،سید عمر شاہ گجراتی، خدابخش اور ڈاکٹر غلام جیلانی برق (جنہوں نے بعد میں رجوع کرلیاتھا)و غیرہ بھی شامل ہیں ۔[5]
حدیث چونکہ اسلام کے بنیادی ماخذ اور قرآن کی شارح کی حیثیت رکھتی ہے اور انکارِ حدیث کی صورت میں اسلام کاوہ حلیہ ہی مسخ ہوجاتا ہے جس کی عملی تصویر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کی تھی۔ اس لئے اُمت نے کلیۃ ً انکارِ حدیث کو کبھی بھی قبول نہیں کیا۔ لہٰذا برصغیر میں جب بھی یہ فتنہ اُٹھا تواہل علم نے اس کی پُرزور تردید کی۔ اس موضوع پر بیسیوں کتب تالیف کیں ۔ مناظرے کئے، اجتماعات منعقد کئے اور رسائل و جرائد میں بحوث ومضامین قلم بند کیے وغیرہ وغیرہ۔ نتیجۃً فتنہ انکارِ حدیث کافی حد تک انحطاط کا شکار ہوگیا اور اسے عوام میں پذیرائی نہ مل سکی۔ اور اس کا ایک واضح ثبوت یہ ہے کہ نہ تو آج سرسید کی تفسیر کو قبولِ عام حاصل ہے اور نہ ہی فرقہ اہل قرآن کانام و نشان باقی ہے۔
بہرحال جب منکرین حدیث نے اس قدر شدید ردّعمل دیکھا تو کلی طور پر انکارِ حدیث کی روش ترک کردی۔ بعدازاں مختلف حیلوں ، بہانوں سے حدیث کومشکوک بنانے کی کوشش شروع
[1] رہنماے وکالت،ص۴۲۸