کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 66
تیرہویں صدی ہجری میں اس نے دوبارہ جنم لیا۔ اب اس کا مقامِ پیدائش برصغیر پاک وہند تھا۔ واضح رہے کہ دوسری صدی ہجری کی بہ نسبت اب حالات بہت مختلف تھے۔ اس وقت مسلمان فاتح تھے اور اُنہیں سیاسی غلبہ حاصل تھا اور جن فلسفوں سے اُنہیں سابقہ پیش آیا تھا، وہ مفتوح و مغلوب قوموں کا فلسفہ تھا۔ اس و جہ سے ان فلسفوں کا حملہ بہت ہلکا ثابت ہوا۔ اس کے برعکس تیرہویں صدی ہجری میں یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا جب کہ مسلمان ہرمیدان میں پٹ چکا تھا۔ اس کی سرزمین پر دشمنوں کا قبضہ ہوچکا تھا۔ معاشی حیثیت سے اُنہیں کچل ڈالا گیا تھا۔ ان کانظامِ تعلیم درہم برہم ہوچکا تھا اور ان پر فاتح قوم نے اپنی تعلیم، اپنی تہذیب، اپنی زبان،اپنے قوانین اور اپنے اجتماعی، سیاسی اور معاشی اداروں کو پوری طرح مسلط کررکھا تھا۔ ایسے حالات میں فاتحوں کے فلسفے اور سائنس نے ان کو معتزلہ کی نسبت ہزار درجہ زیادہ مرعوب کردیا۔ اُنہوں نے یہ سمجھ لیا کہ مغرب سے جو افکار و نظریات درآمد ہورہے ہیں ، وہ سراسر معقول ہیں ۔ ان پر اسلام کے نقطۂ نظر سے تنقید کرکے حق و باطل کا فیصلہ کرنا محض تاریک خیالی ہے اور زمانہ کے ساتھ چلنے کی صورت بس یہی ہے کہ اسلام کو کسی نہ کسی طرح ان کے مطابق ڈھال لیا جائے۔[1] برصغیر میں اس جدید فتنہ کے بانی اور سرخیل سرسید احمد خان تصور کئے جاتے ہیں جنہوں نے مغربی نظریات اورعقل و فلسفہ سے متاثر ہوکر نہ صرف جدید انکارِ حدیث کی داغ بیل ڈالی بلکہ اسلام کے بہت سے متفقہ مسائل کا بھی یا تو کلیۃً انکار کردیا یا پھر ان میں من مانی تاویل کردی جیسے معجزات کا انکار، فرشتوں کے وجود کاانکار، تجارتی سود کی حرمت کا انکار، پردہ کا انکار اور متعدد خرقِ عادت شرعی اُمور کاانکار وغیرہ۔[2] البتہ یہ بات ملحوظ رہے کہ سرسیداحمد خان اَحادیث کی صحت کے منکر نہیں تھے بلکہ وہ احادیث سے استدلال بھی کرتے تھے، تاہم وہ صرف اُن احادیث کا انکار کرتے جوان کے خود ساختہ معیار پرپوری نہ اُترتیں ۔ جیساکہ اُنہوں نے خود بھی یہ وضاحت فرمائی ہے۔[3] سرسید کے بعد مولوی عبداللہ چکڑالوی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں
[1] اُردو انسائیکلوپیڈیا،ص۶۸۹