کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 65
ہم سے الگ ہوگیا۔‘‘ اس کے الگ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ اس نے مرتکب ِکبیرہ کے متعلق حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کی اس رائے سے اختلاف کیا تھا جس پر مسلمانوں کااجماع تھا۔ چنانچہ واصل اور اس کے ساتھ الگ ہونے والے ’معتزلہ‘ کہلائے۔[1]اُنہوں نے دراصل یونانی فلسفہ سے متاثر ہوکر عقل کو فیصلہ کن حیثیت دے رکھی تھی۔[2] لہٰذا یہ صرف وہی اسلامی احکامات تسلیم کرتے جو عقل کے تقاضوں پرپورے اُترتے۔ یوں اُنہوں نے بھی بہت سی ایسی صحیح اَحادیث کو ردّ کردیا جو ان کے عقائد و نظریات کے خلاف تھیں ۔ ردّ ِحدیث کے لئے اُنہوں نے دو حربے اختیار کررکھے تھے، ایک یہ کہ حدیث کے بارے میں یہ شک دلوں میں ڈالا جائے کہ وہ فی الواقع حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیں بھی یا نہیں ؟ دوسرے یہ کہ اُصولی سوال اٹھایا جائے کہ کوئی قول یا فعل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہو بھی تو ہم اس کی اطاعت و اتباع کے پابند کب ہیں ؟ ان کانقطۂ نظر یہ تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم تک قرآن پہنچانے کے لئے مامور کئے گئے تھے، سو اُنہوں نے وہ پہنچا دیا، اس کے بعد محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم ویسے ہی ایک انسان تھے، جیسے ہم ہیں ۔ انہوں نے جوکچھ کہا اور کیا وہ ہمارے لئے حجت کیسے ہوسکتا ہے؟ [3] یہ فتنہ کچھ ہی عرصہ میں روبہ زوال ہوگیا، کیونکہ اس کے سد ِباب کے لئے ائمہ محدثین نے پوری جستجو سے تحقیقات پیش کیں ۔ چنانچہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ، امام شافعی رحمہ اللہ ، امام بخاری رحمہ اللہ ، امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ، امام ابن قیم رحمہ اللہ ، امام غزالی رحمہ اللہ اور امام ابن حزم رحمہ اللہ جیسے جبالِ علم اس کی راہ میں حائل ہوگئے اور عقلی و نقلی دلائل کے ذریعے اس کی تردید کرکے اسے مزید پنپنے سے روک دیا۔ علاوہ ازیں سنت ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر بڑی حد تک دین کاحلیہ ہی بدل جانے کے باعث اُمت ِاسلامیہ کے اجتماعی ضمیر نے بھی اس فتنہ کو قبول نہیں کیا جس بنا پر اسے دم توڑنا ہی پڑا اور پھر صدیوں تک اس کا کہیں نام و نشان بھی نظر نہ آیا۔[4]