کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 64
حدیث وسنت حافظ عمران ایوب لاہوری٭ فتنۂ انکارِ حدیث کے نئے شبہات کا جائزہ فتنہ انکارِ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشین گوئی کا مصداق ہے جس کے مطابق ایسے لوگوں کا ظہور ہوگا جو صرف قرآنِ کریم کی اتباع کو ہی کافی و شافی سمجھیں گے۔[1] چنانچہ ابتداء ًدوسری صدی ہجری میں عراق میں اور بعدازاں تیرہویں صدی ہجری میں برصغیر پاک و ہند میں اس فتنہ کا ظہور ہوا۔ دوسری صدی ہجری میں اس فتنہ کے بانی خوارج اور معتزلہ تھے۔ خوارج کو تاریخ اسلام کا اوّلین فرقہ شمار کیا جاتاہے۔[2]خوارج کی وجہ تسمیہ ان کا ائمۃ المسلمین اور مسلمانوں کے خلاف خروج کو حلال سمجھنا ہے۔[3] اس فرقہ کا بنیادی عقیدہ ہی یہ تھا کہ صرف قرآن کی بات تسلیم کی جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے حد ِرجم کا انکار کیا،کیونکہ اس کا ذکر قرآن میں نہیں ۔اسی بنا پر اکثر ائمہ خوارج کی تکفیر کے قائل ہیں ۔ دراصل خوارج نے کچھ ایسے غلو آمیز اورا نتہا پسندانہ نظریات قائم کررکھے تھے جن کی بقا انکارِ حدیث کے بغیر ممکن ہی نہ تھی۔ اس لئے وہ صرف انہی احادیث کو قبول کرتے جو ان کے عقائدکی مؤید ہوتیں اور باقی کا انکار کردیتے تو اس طرح انکارِ حدیث کا آغاز ہوا۔[4] انکارِ حدیث کے آغاز کے سلسلے میں دوسرے جس فرقے کا نام لیا جاتاہے وہ معتزلہ ہے۔ معتزلہ کی وجہ تسمیہ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کا یہ قول ہے کہ اعتزل عنا یعنی ’’ وہ (واصل بن عطا)
[1] Khan, Makhdom Ali "The Constitution of Republic of Pakistan" 1973, Karachi, (Pakistan Law Book House) p.86