کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 63
٭ اس وقت پاکستان کو ایک این آر او صدر کی بجائے ایک جرأت مند حکمران کی ضرورت ہے جو امریکیوں کی ان کمزوریوں سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے مملکت ِپاکستان کی خود مختاری اور پاکستانی عوام کی عزتِ نفس کا تحفظ کر سکے۔ہمیں آج ایسے حکمرانوں کی ضرورت ہے جو امریکہ کے متعلق خوف کی نفسیات سے بار نکل کر غیرت وحمیت کے جذبات سے سرشار ہو کر وطن عزیز کی پالیسیاں مرتب کریں ۔ہم جب تک امریکہ کی غلامی سے نجات حاصل نہیں کریں گے اقوامِ عالم میں سر اٹھا کر چلنے کے قابل نہیں ہو سکیں گے۔یہ پاکستانی قوم کی بد قسمتی ہے کہ ہرآنے والا حکمران اسے امریکی غلامی میں مزید پختہ کرنے کی تدبیریں کرنا شروع ہوجاتا ہے تا کہ اس کا شخصی اقتدار قائم رکھا جا سکے۔ خوش آئند پہلو یہ ہے کہ قوم اس خوے غلامی سے بیزار نظر آتی ہے۔ ٭ وائے افسوس! شب ِ دیجور کے چھٹنے کے بعد سپیدۂ سحر طلوع نہ ہوا۔جو لوگ پرویز مشرف کے منظر سے غائب ہونے کو ’زہق الباطل‘ قرار دے کربلیوں اچھل رہے تھے، وہ آصف علی زرداری کے منصب ِصدارت پرفائز ہونے کو’’جاء الباطل‘ سمجھتے اور اندیشہ ہائے دور و دراز میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں ۔ باطل کے جانے کے بعد ’جاء الحق ‘ کا مژدۂ جانفرا ان کے لئے اب ایک حیرتِ ناتمام کے سوا کچھ نہیں ۔ وہ سوچ سوچ کر اعصابی اختلال کاشکار ہورہے ہیں کہ یا خدا! یہ کوئی سکینڈے نیویا کا ملک ہے جہاں کی شب ِتاریک نہایت طویل ہوگئی ہے؟ وہاں بس یہ ہوتا ہے کہ ہر بارہ گھنٹے کے بعد گھٹا ٹوپ اندھیرے کی جگہ ملگجی اندھیرے لے لیتے ہیں ، سورج طلوع نہیں ہوتا، دن کااُجالا دیکھنے کو نہیں ملتا… یہ کوئی اندھیروں کے نہ ختم ہونے والا پھیر ہے؟ سکینڈے نیویا کے لوگ تو پھر بھی خوش نصیب ہیں کہ چھ ماہ کے بعد وہاں دن ’طلوع‘ ہوجاتا ہے؛ مگر اہل پاکستان؟ … ۱۴/گست ۱۹۴۷ء کی صبح دل پذیر کو ’آفتابِ حق‘ کا ظہور سمجھ کر بیدار ہوئے تھے۔ اُنہیں یقین تھاکہ زھق الباطل ہوگیا اور جاء الحق کی نوید پوری ہوئی۔ مگر واے حسرت! کہ رہبروں کے بعد رہزنوں نے اُجالوں کے چمن کو لوٹ لیا۔ شاید ان کے مقدر کا اَبر ِکرم پھر برسے اور وہ نورِ حق کے سیلاب میں ان تاریک حسرتوں کی بار آوری کا سامان پھر سے کرسکیں ۔ ہم مسلمان ہیں ، جاء الحق کی اُمید کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے۔ آج نہیں … تو کل نورِ حق کا ظہور ضرور ہوگا۔ان شاء اللہ! شاید پاسبان مل جائیں کعبے کو صنم خانے سے… شاید!! (محمد عطاء اللہ صدیقی)