کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 56
کے درجے تک پہنچادیا۔ جج بحال نہ کرنے کے لئے وہ مسلسل حیلے تراشتا رہا اور مسلم لیگ (ن) کو اس وقت تک اپنے دائرے سے باہر نہ نکلنے دیا جب تک کہ مشرف کو نکال کر ایوانِ صدر میں پہنچنے کا راستہ بالکل صاف نہ ہوگیا۔ جب آصف علی زرداری نے جج بحال کرنے کے وعدہ سے انحراف کردیاتو مسلم لیگ (ن) نے حکمران اتحاد سے حتمی علیحدگی کا اعلان کردیا۔اسی دن آصف علی زرداری نے میڈیا پرآکر میاں صاحب کے فیصلے پر ’افسوس‘ کااظہار کیااور اُنہیں فیصلہ واپس لینے کی ’درخواست‘کی۔ زرداری نے خود اپنی اُمیدواری کا اعلان کرنے کی بجائے اپنی پارٹی کے لوگوں کے ذریعے ’مطالبے‘ کی فریب انگیز مہم چلائی۔ بہت کم لوگوں کوتوقع تھی کہ آصف علی زرداری صدارت کے لئے خود اُمیدوار بنیں گے۔ ماضی میں کرپشن کے الزامات کی وجہ سے وہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر کافی بدنام اور متنازعہ فیہ ہوچکے تھے۔ یہی وجہ ہے آصف علی زرداری کے صدارتی امیدوار کے طور پر سامنے آتے ہیں انٹرنیشنل میڈیا میں ہاہا کار مچ گئی۔ ۴/ ستمبر کی شام جیو ٹی وی پر معروف اینکر پرسن کامران خان نے بتایاکہ بین الاقوامی پریس اور الیکٹرانک میڈیا میں ساڑھے چار ہزار سے زائد مضامین، تبصرے اور خبریں شائع ہوئیں جن میں آصف علی زرداری کی شخصیت کو تنقیدکا نشانہ بنایاگیاتھا۔ لندن سے شائع ہونے والے معروف روزنامہ’ فنانشل ٹائمز‘ نے آصف علی زرداری کی ایک سال پہلے کی میڈیکل رپورٹ کی نقول شائع کیں جن کی رو سے وہ امریکہ کے ذہنی امراض کے ایک معروف ڈاکٹر کے زیرعلاج رہے تھے۔ ان کے شدید ڈپریشن اور Demensim (یادداشت کا ختم ہونا) کی بیماری کی وجہ سے ایک سال پہلے برطانیہ کی عدالت سے درخواست کی گئی تھی کہ اُنہیں عدالت میں حاضری سے مستثنیٰ قرار دے۔پاکستانی اخبارات نے نیو یارک ٹائمز، واشنگٹن ٹائمز، گارڈین، ڈیلی ایکسپریس، ٹائم اور نیوز ویک جیسے عالمی شہرت یافتہ اخبارات میں شائع ہونے والے مضامین کودوبارہ شائع کیا۔ الیکٹرانک میڈیا کاشاید ہی کوئی معروف ٹاک شو ہو جس میں ان خبروں کو زیربحث نہ لایاگیاہو۔ بین الاقوامی اخبارات نے آصف علی زرداری کے خلاف کرپشن کے مقدمات کی تفصیلات دیں ۔ بعض اخبارات نے اُسے جوانی میں ’پلے بوائے‘ کے طور پر پیش کیا۔ ۲۸/اگست کو صدارتی انتخابات کے لئے کاغذات جمع کرانے کی آخری تاریخ تھی۔ ٹھیک ایک دن پہلے سوئٹرز لینڈ کی عدالت نے بیان کیاکہ حکومت ِپاکستان کے تفتیشی افسرنے آصف علی زرداری
[1] صحیح بخاری :۶۸۷۷،ابوداود:۴۵۲۹ [2] مسلم،الجامع الصحیح(دارالسلام ،الریاض،۱۹۹۸ء)ص۷۴۳،حدیث نمبر۴۳۷۴ [3] الموسوعۃ القضائیۃ مترجم (فلاح فاؤنڈیشن،لاہور)ص۸۹