کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 55
اس بدقسمت قوم کے ساتھ کیاگیا ہے۔ایک ایسا شخص جس نے آئین کو دو مرتبہ پامال کیا اور سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ۶۰ جج صاحبان کو معزول کرکے اُنہیں گھروں میں قید کیا ، اس کے لئے ابھی سے معافی کی باضابطہ تیاری؟… بے حد تعجب ہے!! ۷/اگست ۲۰۰۸ء کو میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری نے مشترکہ پریس کانفرنس کے ذریعے اعلان کیاکہ صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے مؤاخذے کی تحریک عنقریب پارلیمنٹ میں پیش کی جائے گی ، مطلوبہ ارکان کی تعداد میسر ہے اور تحریک ِمؤاخذہ کی بحالی کے فوراً بعد غیر فعال چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت تمام جج صاحبان کو بحال کردیا جائے گا۔ مگر یہ ایک شاطرانہ چال تھی جو آصف علی زرداری نے چلی۔ ۱۸/ اگست کی شام پرویز مشرف نے ایوانِ صدر سے جونہی قدم نکالا، تو زرداری نے ایک دفعہ پھر آئینی پیچیدگیوں کی پٹاری کھول دی اور ججوں کی بحالی کے وعدے سے نہ صرف مکر گئے بلکہ نہایت افسوس ناک بیان بھی دے دیا کہ’’ معاہدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے۔‘‘ میاں نوازشریف صاحب پریس کے سامنے زرداری کے دستخط شدہ معاہدے کی کاپیاں لہراتے رہ گئے۔ وہ صحافیوں کے سوال پر بے حد شرمندہ ہوتے ہوئے محض ایک فلمی گیت کے مصرعہ یعنی ’’کیاہوا تیرا وعدہ‘‘ دہرانے کے علاوہ آخر کربھی کیاسکتے تھے؟ میاں صاحب نے پریس کانفرنس میں اعتراف کیا کہ ’’اب ایسے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں استعمال کیاگیاہے۔‘‘ موصوف نے صحافیوں کے سامنے یہ بھی انکشاف کیا کہ ’’آصف علی زرداری تواپنے بیڈ روم سے قرآن مجید بھی اُٹھا لائے تھے کہ ہمیں ہر طرح کااعتماد دلا سکیں ۔ لیکن میں نے روک دیا کہ سیاسی باتوں میں قرآن اٹھانا درست نہیں ۔‘‘ میاں صاحب نے وضاحت کی کہ’’آصف علی زرداری نے اب تک ان سے کئے گئے دس وعدوں سے انحراف کیا ہے، محض تین دفعہ نہیں ۔‘‘ کاش کہ میاں صاحب وہ حدیث شریف ذہن میں رکھتے کہ ’’مؤمن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا۔‘‘ معلوم ہوتا ہے کہ ایوانِ صدر میں جلوہ گر ہونے کے لئے آصف علی زرداری نے طویل منصوبہ بندی کررکھی تھی۔ وہ مسلسل شاطرانہ سیاست کے پتے کھیلتا رہا جسے اُس کے حواری میڈیا میں ’تدبر‘ کا نام دے کر گذشتہ چند ماہ میں اس کا تاثر بہتر بنانے کی کوشش کرتے رہے، نواز شریف صاحب کو بھی اس کی گیم کم ہی سمجھ آئی۔ اس نے ثابت کیا کہ چالبازی، ہوشیاری اور چالاکی میں اس کا کوئی ثانی نہیں ۔ سیاست میں مخالف کو فریب دینے کے عمل کو اس نے ’آرٹ‘
[1] احمد بن حنبل،المسند(دارالفکر،بیروت)۲؍۲۴۳ [2] ابوداؤد،السنن،ص۵۱۵،حدیث نمبر۳۵۹۱ [3] الواقدی،محمد بن عمر،کتاب المغازی(عالم الکتب،بیروت)۲؍۶۹۱ [4] ابوداؤد،السنن،ص۴۰۱،حدیث نمبر۲۷۵۹ [5] ایضاً،ص۴۰۱،حدیث نمبر۲۷۶۰