کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 53
ہے۔ خیر کی کنجیاں اس کے پاس ہیں اور وہ ہر شے پر قدرتِ کاملہ رکھتا ہے۔‘‘(آل عمران:۲۶)
۲۰/ جولائی ۲۰۰۷ء کو سپریم کورٹ کے فل بنچ نے، جس کی صدارت جسٹس خلیل الرحمن رمدے کررہے تھے، غیرفعال چیف جسٹس افتخار چوہدری صاحب کو ایک متفقہ فیصلے کے ذریعے بحال کردیا۔ سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان باوردی صدر کے سامنے قانون کی بالادستی اور عدلیہ کے وقار کو بلند رکھنے کا عزم کئے ہوئے تھے۔ قوم نے ان کے اس جرات مندانہ اور تاریخ ساز فیصلہ کو بے حد سراہا۔ فوجی آمر کو اپنا مستقبل ڈانواں ڈول نظر آنے لگا۔ اب وہ بے چین رہنے لگا کہ کس طرح قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلیوں سے اپنے آپ کو آئندہ پانچ سال کے لئے صدر منتخب کرالے۔ آئینی ماہرین کاخیال تھا کہ یہ اسمبلیاں جن کی مدت ختم ہورہی تھی، جنرل پرویز مشرف کو دوبارہ صدر منتخب کرنے کا اختیار نہیں رکھتی تھیں ۔ اُدھر وردی اُتار دینے کا مطالبہ بھی شدت اختیارکرگیا، اس معاملے میں جنرل صاحب کے بیرونی دوستوں کا دباؤ بھی کم نہ تھا۔ عوامی مطالبے کے علیٰ الرغم جنرل پرویز مشرف نے صدارتی انتخابات کا اعلان کردیا۔ سپریم کورٹ میں اُس کی اہلیت کو چیلنج کردیا گیا کہ آیاوہ تیسری بار صدارتی انتخاب کے لئے آئین کی رو سے امیدوار ہو بھی سکتا ہے یا نہیں ؟ سپریم کورٹ میں رِٹ پٹیشن کی سماعت کے دوران لگ رہا تھا کہ اس دفعہ عدلیہ میرٹ پر فیصلہ دے گی۔ ۲۰/ جولائی والے فیصلے نے ہی ظاہر کردیاتھا کہ اب یہ ماضی کی ’نظریۂ ضرورت‘ کی رعایت رکھنے والی عدلیہ نہیں ہے۔ فوجی آمر کیس کی پیش رفت پرعقابی نگاہیں رکھے ہوئے تھا، وہ اپنے ’قانونی ماہرین‘ سے مشورے کے بعد آگے بڑھ کر اقدام کرنے کا بندوبست کرچکاتھا۔ نجانے کس ذریعے سے اُسے بھنک پڑی کہ سات ججوں پر مشتمل سپریم کورٹ کا فاضل بنچ اُس کے خلاف فیصلہ دینے کے لئے ذہن بناچکاہے۔ کمانڈو صدر نے ایک دن کی بھی تاخیر گوارا نہ کی اور ۲/ نومبر ۲۰۰۷ء کو ایمرجنسی لگادی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور اس بنچ کو معزول کردیا۔
عدالت ِعظمیٰ اور عدالت ہائے عالیہ کے جج صاحبان سے تقاضاکیا گیا کہ وہ پی سی او کے تحت نیا حلف اٹھائیں ۔ انکار کرنے والے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ۶۰ جج صاحبان کو گھر بھیج دیا گیا۔ ایک فوجی آمر نے اپنی نااہلی کے فیصلے کے خوف سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کو دوسری مرتبہ توڑا اور دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی ملک کی اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کی اتنی کثیر تعداد کو گھر بھیجنے کا انتہائی اِقدام اٹھا کر بدترین رسوائی مول لی۔ اس کے باوجود موصوف کو جب
[1] مقالاتِ سیرت نبویؐ،ص:۱۹۲
[2] البخاری ،الجامع الصحیح،ص۲۳،حدیث نمبر۱۰۱