کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 51
جاسکتا ہے۔ ۱۰/ جولائی ۲۰۰۷ء پاکستان کی تاریخ کاالم ناک ترین دن تھا جب لال مسجد کو شہید کیا گیا اورجامعہ حفصہ کی ہزاروں معصوم بچیوں کے جسموں کو فاسفورس کے بموں سے تحلیل کردیاگیا۔ اسلام کی ان مقدس بیٹیوں کے جسموں کے ٹکڑے دیر تک ساتھ بہتے گندے نالے سے ملتے رہے۔ قرآنِ مجید کے صفحات بھی اسی ناپاک مقام میں جا بجا بکھرے نظر آئے۔ صحافیوں نے بتایا کہ ان معصوم طالبات کے جسموں کے لوتھڑے اور بوٹیاں ٹرکوں میں لاد کر کہوٹہ اور کلر کہار کے قریب برساتی نالوں اور کھائیوں میں پھینک دیئے گئے تھے۔ غازی عبدالرشید شہید اور ان کے ساتھی آخری لمحات میں لال مسجد چھوڑنے کو تیار ہوگئے تھے۔ مصدقہ اطلاع کے مطابق معاہدہ طے ہوگیاتھا مگر اس درندہ صفت اور شقی القلب حکمران کی جھوٹی اَنا کی تسکین اور امریکی خوشنودی کے حصول کی غلامانہ خواہش کے سامنے کسی کی نہ چل سکی۔ بعض وفاقی وزیر ٹیلیویژن پربے بسی سے روتے دکھائی دیئے۔ ظلم وبربریت کی تاریخ دہرائی گئی اور پانچ روز سے پانی پر گزارا کرنے والے فاقہ کش اور پناہ گزیں مسلمانوں اور معصوم بچیوں کو اس قدر بھی ظالموں نے رحم کے قابل نہ سمجھا کہ ان کی لاشوں کو صحیح سلامت ان کے ورثا کے حوالے کردیتے۔ اُنہیں ریزہ ریزہ کردیاگیا۔چنگیزخان اور ہلاکو خان جیسے ظالم حکمرانوں کی اَرواح بھی شاید معصوم بچیوں کے اس بہیمانہ قتل عام پر تڑپ اُٹھیں ، مگر ایوانِ صدر پر قابض حکمران کو ذرا بھر رحم نہ آیا۔ پوراپاکستان سوگوار تھا، درودیوار ماتم کناں تھے، پاکستانی قوم پر سکتے کی کیفیت طاری ہوگئی،مگر یہ وحشی، یہ سفاک اور شقی القلب جو کل تک اس مملکت ِخدادا کے سیاہ و سفید کا مالک تھا، اُس کا ضمیر…؟ وہ تو مرچکاتھا۔ اگر ایسانہ ہوتا تو پورے ایک سال کے بعد۷/جولائی ۲۰۰۸ء کو کراچی میں تاجروں سے خطاب کرتے ہوئے وہ یہ کبھی نہ کہتا کہ میں ان فوجیوں کوسلام کرتاہوں جنہوں نے جامعہ حفصہ کاآپریشن کیا۔اگر لال مسجد کو ختم نہ کیاجاتا تو پورے پاکستان میں ایسی مساجد بن جاتیں ۔ ایسے شخص کی اس سفاکانہ ذہنیت پر انسانیت نوحہ کرتی رہے گی اور یہ اس دنیا اور آخرت دونوں میں لعنت کا استعارہ بنے رہے گا۔ یہ محض سوے اتفاق نہیں کہ اب تک پاکستان کے جتنے بھی صدور یا چیف آف دی آرمی سٹاف گذرے ہیں ، ظاہری شکل و صورت کے اعتبار سے پرویزمشرف کسی کے پاسنگ میں بھی نہیں ۔ شاید ہی کسی جرنیل کے جثے پر وردی اتنی بدنما لگتی ہو، مگر اُسے اس وردی پر بہت گھمنڈ تھا،
[1] ا بو داؤد،السنن،ص۴۴۹،حدیث نمبر۳۰۶۷ [2] المائدہ:۴۲،۴۳