کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 50
کیجئے یہ تسلیم بھی کرلیاجائے کہ یہ ان ۱۹ نوجوانوں کی کارگزاری تھی جن کے نام امریکیوں نے مشتہر کئے، تب بھی اس بات کاعسکری یااخلاقی جواز نہیں بنتا کہ ایک آزاد اور خود مختار مسلمان ملک پر جدیدہولناک بموں اور ہتھیاروں سے کارپٹ بمباری کرتے ہوئے اس کی آبادیوں اور ہنستے بستے شہروں کو کھنڈرات میں بدل دیاجائے۔ اس کے لاکھوں بے گناہ مردوں ، عورتوں اور بچوں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینے کا وحشیانہ اقدام اُٹھایا جائے اور اس ملک پر باقاعدہ فوجی قبضہ کر لیا جائے۔ افغانستان تو ایک مسلمان اور ہمسایہ ملک ہے، اگر امریکہ مسلمانوں کے بدترین دشمن یہود و ہنود کے خلاف بھی ایسی ظالمانہ کارروائی کرے تب بھی اسلام اس کی حمایت کی اجازت نہیں دیتا۔ چہ جائیکہ کہ ایک مسلمان ملک کاسربراہ بے حد غلامانہ انداز میں اپنے کندھے جارح افواج کے لئے پیش کردے اور اس نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس کا دست و بازو بن جائے۔ ہمارا ضمیر ہمیں سونے نہیں دیتا کہ افغانستان کے لاکھوں مسلمانوں کے خلاف دورِ حاضر کی بدترین ریاستی دہشت گردی اور وحشیانہ جارحیت میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حکومت امریکہ کے ایک اہم فرنٹ لائن پارٹنر کاکردار ادا کرتی رہی ہے۔ اور اس طرح جنرل پرویز مشرف نے اسلامی اُخوت کے تصور پرکاری ضرب لگائی اور مسلمانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے۔ اقوامِ عالم کی تاریخ پڑھ جائیے۔پوری انسانی تاریخ میں ریاستی سطح پر آپ کو یہ پالیسی کہیں پڑھنے کو نہیں ملے گی کہ کسی حکمران نے اپنے ملک کے باشندوں کو پکڑ پکڑکر دشمن کے حوالے کیا ہو اور اس کی قیمت بھی وصول کی ہو۔ یہ سیاہ بختی بھی پرویزمشرف کے نامۂ اعمال میں لکھی گئی تھی کہ اس نے ہزاروں پاکستانیوں کو دہشت گرد قرار دے کر گرفتار کرایااور اسے امریکہ کے حوالے کردیا جو گوانتاناموبے جیل کے جہنم زار میں انسانیت سوز مظالم کا شکار ہیں ۔ اس بے غیرتی میں سفارتی آداب بھی فراموش کردیئے گئے اور پاکستان میں افغانستان کے سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کو بھی امریکی فوج کے حوالہ کردیا گیا۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ اس بہیمانہ فعل پر شرمسار ہونے کی بجائے پرویز مشرف نے اپنی کتاب میں بڑے غلامانہ فخر کے ساتھ بیان کیا ہے کہ حکومت ِپاکستان نے چھ سو سے زیادہ افراد کو پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیااور ہرقیدی کے بدلے پانچ ہزار ڈالر وصول کئے۔ پاکستان جیسی عظیم اسلامی ریاست کا صدر اخلاقی پستی میں اس قدر گرسکتا ہے، اس کا تصور ہی روح فرسا ہے !! ؎ تفو بر تو اے چرخِ گرداں تفو اور پھر اُس روح و بدن کو لرزا دینے والے واقعہ کاذکر دل گرفتگی اور حزن کے بغیر کیونکر کیا
[1] ابوداؤد،السنن،ص۴۲۶،حدیث نمبر۲۹۳۱ [2] محمد حمید اللہ ، عہد ِنبویؐ میں نظام حکمرانی (مکتبہ ابراہیمہ،حیدرآباد دکن)۱؍۸۴ [3] ڈاکٹر لُوتھر،جدید دنیاے اسلام(بحوالہ مقالات سیرت،نویں قومی کانفرنس،اسلام آباد)ص۱۶۵