کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 49
اس کی الوداعی تقریرکے آخری جملے سننے والے تھے۔ اس نے اداکاری کرتے ہوئے یہ آخری تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ مستعفی ہوکر اس قوم پر احسانِ عظیم فرمارہے ہیں ۔ ایسے موقعوں پر کہاجاتا ہے کہ ؎ گر مجھ پر احسان نہ کرتے تو یہ احسان ہوتا!! سچی بات یہ ہے کہ عہد ِمشرف کا تصور ہی حد درجہ کربناک ہے۔ جی چاہتا ہے کہ اس کا تذکرہ نوکِ قلم سے نہیں بلکہ خونِ دل سے تحریر کیاجائے، تب بھی شاید مذمت اور ابطالِ باطل کا حق ادا نہ ہوسکے۔ خارجہ پالیسی پر نگاہ ڈالتے ہیں تو پاک دھرتی کا سینہ خون سے لتھڑا ہوا نظر آتا ہے۔ وہ عظیم دھرتی جس پر بھارتی بزدلوں نے ۱۹۶۵ء میں قدم رکھنے کی کوشش کی تھی تو اس کے بہادر بیٹوں نے اپنی جانیں وار کر اس کی عصمت کی چادر میلی نہ ہونے دی تھی۔ آج اس دھرتی پرامریکی فوجیوں کے بوٹوں کی دھمک کان پھاڑے جاتی ہے، مگر قوم بے بس ہے۔ ۱۱/۹ کے بعد سرزمین پاک کو امریکی جنگی جہازوں کی پروازوں کے لئے کھلا چھوڑ دیاگیا۔ نتیجتاً پاکستان سے ۵۴ ہزار امریکی پروازیں افغانستان کے نہتے اور کمزور مسلمانوں پر بمباری کرنے کے لئے اُڑائی گئیں ۔ ابھی یہ ۴/ستمبر ۲۰۰۴ء ہی کی بات ہے کہ رات کی تاریکی میں دو امریکی ہیلی کاپٹر شمالی وزیرستان میں انگور اڈّہ پربمباری کرکے چلے گئے۔ اخباری رپورٹ کے مطابق امریکی فوجی ہیلی کاپٹر سے اُتر کر چن چن کربیگناہ شہریوں کو گولیوں کا نشانہ بناتے رہے۔ آئے دن پاکستان کے سرحدی علاقوں کی آبادیوں پر میزائل سے حملے ہورہے ہیں ،مگر ان کو روکنے والا کوئی نہیں ۔ یہ سب مشرف کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہی تو ہے کہ آج پاکستان کی خود مختاری Sovereignthکو امریکی جی بھر کرپامال کررہے ہیں ۔ حکومت ِپاکستان بے بس ہے اور عوام خون کے آنسو رو رہے ہیں ۔ جنرل پرویزمشرف اپنے بہادر ہونے کا مصنوعی اشتہار دینے کا عادی تھا۔ اس نے شائستگی اور سارے پارلیمانی آداب کو بالاے طاق رکھتے ہوئے پاکستان کی پارلیمنٹ میں مکا لہرا دیا تھا مگر ۱۱/۹ کے بعد امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ادنیٰ درجے کے اہل کار رچرڈ باؤچر کے ایک فون کی تاب نہ لاتے ہوئے امریکی جارح افواج کو ہر طرح کی سہولتیں دینے کی حامی بھرلی اور اس سلسلے میں پارلیمنٹ یا دیگر شرکاے اقتدار سے مشاورت بھی ضروری نہ سمجھی۔ ۱۱/۹ کے ذمہ داروں کا آج تک تعین نہیں ہوسکا، خود امریکہ میں متعدد ایسی رپورٹیں شائع ہوچکی ہیں جن میں قرار دیاگیا ہے کہ القاعدہ میں اتنابڑا کام کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ فرض
[1] عباس محمود العقادمصری،علی بن ابی طالب،ترجمہ مولانا فتح پوری(نفیس اکیڈمی،لاہور)ص۲۵۹ [2] ابوداؤد،السنن،ص۵۱۶،حدیث نمبر۳۵۹۲۔ ( حدیث ضعیف) [3] ابوالحسن،علی بن محمد بن حبیب،الاحکام السلطانیہ(دارالطباعت عثمانیہ،لاہور)ص۲۱ [4] ابن خلدون،عبدالرحمن، المقدمۃ (مصطفی محمد القاہرہ،۱۳۲۹ھ)