کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 48
کتاب: محدث شمارہ 325
مصنف: حافظ عبد الرحمن مدنی
پبلیشر: مجلس التحقیق الاسلامی لاہور
ترجمہ:
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
فکر و نظر
’زہق الباطل‘ کے بعد ’جاء الحق‘ کب ہوگا؟
۱۸/ اگست ۲۰۰۸ء پاکستان کے کروڑوں دین پسند، محب ِوطن اورباطل دشمن افراد کے لئے زہق الباطل کی نوید لے کرآیا۔ یہی وہ مبارک اور تاریخ ساز دن تھا جب پوری دنیا کے اَربوں مسلمانوں نے ٹیلی ویژن پر براہِ راست (دو بجنے سے صرف دو منٹ پہلے) جنرل پرویز مشرف کی زبان سے صدارت سے مستعفی ہونے کا اعلان سنا۔ بالآخر ۱۲/ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو ایک نادیدنی اور ہنگامی صورتِ حال میں پاکستان کی مسند ِاقتدار پرایک آسیب کی طرح مسلط ہونے والا کج فہم، شیخی باز، شقی القلب، سیکولر اور اِلحادپسند، جمہوریت شکن، فوجی ڈکٹیٹر منظر سے غائب ہوگیا اور ایسا غائب ہوا ہے کہ ہفتوں گذر جانے کے باوجود پاکستانی ستم رسیدہ قوم اس کی شکل دیکھنے اور آواز سننے کی اذیت سے اب تک محفوظ ہے اور ان شاء اللہ اس عافیت کوشی کا تسلسل قائم رہے گا۔
یہ سنت ِالٰہی ہے کہ قوموں کو ان کے گناہوں کی سزا ظالم حکمرانوں کی صورت میں دی جاتی ہے۔ اس اعتبار سے پرویزمشرف کا آٹھ سال، دس ماہ اور ۶ دنوں پرمحیط دور اہل پاکستان کے لئے ایک عذابِ الٰہی سے کم نہ تھا۔ اپنی پالیسیوں اور ان کے نتائج کے اعتبار سے یہ ایک سیاہ ترین دور تھا جس کے بھیانک اثرات ایک طویل عرصے تک محسوس کئے جائیں گے۔ پاکستان کے سیاسی، سماجی اور معاشی منظر پر وحشت و بربریت، ناآسودگی، غارت گری، دین سوزی، بے حیائی اوراِفلاس کے ایسے تاریک بادل چھا گئے ہیں کہ آفتابِ حق کا چہرہ نظر آنے کا دور دور تک امکان دکھائی نہیں دیتا۔
پاکستان کی تاریخ میں اس سے پہلے بھی بعض طالع آزما جرنیلوں نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا، ان سے نفرت کرنے والے بھی بہت تھے، مگر جنرل (ر) پرویزمشرف کے خلاف پاکستان کی سڑکوں ، بازاروں اور گلیوں میں جس طرح عوامی نفرت اور غیظ و غضب کے مناظر دیکھنے میں آئے، اس کی مثال نہیں ملتی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس قدر گالیاں کھانے کے بعد جس قدر ضد اور ڈھٹائی سے اس آخری ڈکٹیٹر نے اقتدار کے ڈولتے سنگھا سن پر پنجے گاڑے رکھے، یہ بھی اسی کا حوصلہ تھا۔
[1] ڈائریکٹر مسند ِسیرت، دی اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور
الشوریٰ: ۱۵
[2] الاعراف: ۲۹
[3] المائدۃ: ۴۲
[4] شبلی نعمانی، سیرت النبی ؐ(مکتبہ رحمانیہ،لاہور)۲؍۵۰