کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 126
گھناؤنا جرم کیا تھا، لہٰذا اسے کٹے ہوئے اعضاے انسانی اپنے گلے میں پہننے کی ضرورت ہی نہ تھی، اسے تو آزادی کی ضرورت تھی جو اسے مل گئی۔ نہ وہ ہند بنت ِعتبہ کا غلام تھا اور نہ ہی ہند نے اسے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قتل پر آمادہ کیاتھا، اسے تو جبیر بن مطعم کا منصوبہ کام دے گیا۔ بعدازاں حضرت جبیر رضی اللہ عنہ بن مطعم اور ہند رضی اللہ عنہا بنت عتبہ اور وحشی رضی اللہ عنہ بن حرب نے اسلام قبول کرلیا اور اسلام کی خاطر شاندار خدمات سرانجام دیں ۔ فتح الباري اور الاصابہ وغیرہ میں شرح و بسط سے ان کے قبولِ اسلام کا قصہ مرقوم ہے۔اگر ہند رضی اللہ عنہا بنت عتبہ نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے جسد ِ اطہر سے ایسا سلوک کیاہوتا تو حضرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبولِ اسلام کے وقت ایسا تو کہہ دینا تھا کہ ہند تیرا اِسلام تو قبول ہے، لیکن اُٹھ کرچلی جا اور آئندہ میرے سامنے نہ آنا، کیونکہ مجھے شہید چچا کی المناک شہادت یاد آجایاکرے گی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں فرمایا بلکہ اس کے بجائے طبقاتِ ابن سعد :۸/۱۷۱میں منقول ہے کہ وہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا: یا رسول ﷲ! الحمد للّٰہ الذي أظھر الدین الذي اختار لنفسہ لتنفعني رحمک یا محمد! إنی إمرأۃ مؤمنۃ باللہ مصدقۃ برسولہ ‘‘ ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! تمام طرح کی حمدوثنا اللہ کے لئے جس نے اس دین کو غالب کردکھایا جسے اس نے اپنے لئے پسند کیا۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے (عفو و درگزر) کی صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابت داری کا نفع ملنا چاہئے۔ میں اللہ پر ایمان رکھنے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرنے والی عورت ہوں ۔‘‘ بعد ازاں اس نے کہا: ’’ میں ہند بنت ِعتبہ ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مرحبًا بکِ ‘‘ (خوش آمدید) پھر وہ یوں گویاہوئی: ’’واللہ ما کان علی الأرض أھل خباء أحب إلي من أن یذلوا من خبائک۔ ولقد أصبحتُ: وما علی الأرض أھل خباء أحب من أن یعزوا من خبائک‘‘ ’’اللہ کی قسم! روے زمین پر مجھے آپ کے گھرانے سے بڑھ کر کسی گھرانے کا ذلیل ہونا محبوب نہ تھا اور آج میری کیفیت یہ ہے کہ روے زمین پر مجھے آپ کے گھرانے سے بڑھ کر کسی گھرانے کا عزت دار ہونا محبوب نہیں ۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وزیادۃ اور بخاری کی روایت میں وأیضًا والذي نفسي بیدہ پھر اس نے جہادِ یرموک میں جو بے مثال خدمات سرانجام دیں ، وہ تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں ۔