کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 125
کرتی ہیں ۔ ٭ اس روایت کامتن بھی منکر ہے اور وہ اس طرح کہ اس روایت میں ذکر ہے کہ آپ نے پوچھا: ((أ أکلت منھا شیئا؟)) قالوا: لا، ((قال ما کان اللہ لیدخل شیئًا من حمزۃ النار)) اس روایت کامدعا ہے کہ ہندبن عتبہ اسلام قبول نہیں کرے گی اور جہنم میں داخل ہوگی کیونکہ اللہ نے حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کے بدن کے کسی جز کو ایسے بدن میں داخل نہیں ہونے دیا جو آگ میں جلنا ہے۔ جبکہ صحیح بخاری جیسی کتب ِصحاح میں صحیح الاسناد روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ ہند رضی اللہ عنہا نے فتح مکہ کے دن اسلام قبول کیا اور ساری زندگی اسلام و ایمان پرقائم رہی بلکہ فتح الباری میں امام ابن حجرعسقلانی رحمہ اللہ نے یہ بھی بیان کیا ہے: کہ وکانت من عقلاء النساء اور پھر حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری دیتے وقت اس کی گفتگو سے اس کی دانش مندی پرکئی پہلوؤں سے استدلال کیا۔ (۷/۱۴۱) اگرچہ مذکورہ بالا روایت کے بعض مندرجات کی دیگر شواہد احادیث میں تائید موجود ہے لیکن ہند کے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے پیٹ چاک اور ان کا جگر چبانے کی بات کسی طرح بھی صحیح طور سے ثابت نہیں ہوتی۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب جیسے اسد اللہ واسد رسولہ کی شہادت نہایت الم ناک ہے، لیکن اس میں مرکزی کردار حضرت جبیر بن مُطعم کا ہے جس نے اپنے چچا طعیمہ بن عدی کا بدلہ لینے کے لئے وحشی بن حرب کو خصوصی طور پر مشن سونپا تھا اور اس نے محض اپنی آزادی کی خاطر بزدلانہ حملہ کرکے آپ کو شہید کردیا تھا۔ باقی رہی یہ بات کہ شہداے اُحد کامثلہ تو ہواتھا تو ہم بھی یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ یقینا ان کامثلہ ہواتھا، لیکن یہ سارا کام صرف ہند بنت ِعتبہ قرشیہ نے سرانجام نہ دیاتھا بلکہ اس کے ساتھ دیگر خواتین یا مشرکین بھی شریک تھے جواس گھناؤنے جرم کاارتکاب کرتے رہے، لیکن جہاں تک پیٹ چاک کرکے کلیجہ یا جگر چبانے یاشہداے کرام کے ناک، کان کاٹ کر ہار بنانے اور اسے گلے میں لٹکانے اور پھر اس وحشی بن حرب کو ہدیہ دینے جیسی روایات منقول ہیں تو ایک طرف تو وہ سنداً صحیح نہیں ، دوسری طرف فطرتِ انسانی بھی اِنہیں قبول کرنے سے اِبا کرتی ہے اور عقل سلیم بھی اسے تسلیم نہیں کرتی، کیونکہ وحشی بن حرب کی حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ سے دشمنی نہ تھی۔ وہ توجبیر بن مطعم کا غلام تھا اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے جبیر بن مطعم کے چچا طعیمہ بن عدی کو جنگ ِبدر میں قتل کیاتھا، اس لئے جبیر نے اپنے چچا کاانتقام لینے کے لئے وحشی کو آزادی کا لالچ دے کر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قتل پرآمادہ کیا تھا۔ اوراس نے محض اپنی آزادی کی خاطر یہ بزدلانہ اور