کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 124
السائب ۔ (التاریخ از حافظ ابن کثیر :۴/۴۰،۴۱) ’’ اس روایت کو بیان کرنے میں امام احمد منفرد ہیں اور اس میں عطاء بن سائب کی وجہ سے ضعف بھی ہے۔‘‘ امام ہیثمی رحمہ اللہ مجمع الزوائد میں اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں : وفیہ عطاء بن سائب وقد اختلط (۶/۱۱۰) اگرچہ علامہ احمد شاکر رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں کہ یہ روایت اختلاط سے قبل کی ہے، لیکن ان کااختلاط روایت ِ مذکورہ میں اظہر من الشمس ہے اور وہ اس طرح کہ ٭ صحیح بخاری ودیگر کتب ِصحاح میں مسلمان عورتوں کے مشرکین زخمیوں پرحملہ آور ہونے کا ذکرنہیں ہے جبکہ یہاں اس بات کا ذکر ہے کہ مسلمان عورتیں زخمی مشرکوں پرحملہ آور ہو رہی تھیں ۔ ٭ صحیح احادیث میں : یوم لنا ویوم علینا، ویوم نُسَائُ ویوم نُسَرُّ، حنظلۃ بحنظلۃ وفلان بفلان کا ذکر بھی نہیں ہے جبکہ اس روایت میں مسجع ومقفیٰعبارت موجود ہے جو خود ساختہ معلوم ہوتی ہے۔ ٭ اس روایت میں ذکر ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان نے جواب میں خود فرمایا: لا سوائً أما قتلانا فأحیاء یُرزقون وقتلاکم في النار یُعذَّبون جبکہ صحیح حدیث میں منقول ہے کہ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس مفہوم کا جواب دیا تھا۔ ٭ اس روایت میں اس بات کا ذکر ہے کہ ابوسفیان نے پہلےأعلُ ھُبل کانعرہ لگایا تھا جبکہ صحیح احادیث میں ہے کہ اس نے دامنِ اُحد میں کھڑا ہوکر پوچھا تھا کہ تم میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہے؟ کیا تم میں ابن ابی قحافہ ہے؟ کیا تم میں ابن خطاب ہے، پھر اس کے بعد اس نے أعلُ ھبل کہا تھا۔ ٭ اس روایت میں ہے کہ حضرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شہداے اُحد کی فرداً فرداً نمازِ جنازہ پڑھی اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی ستر مرتبہ نمازِ جنازہ پڑھی جبکہ صحیح احادیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہداے اُحد کو نہ توغسل دیا تھااور نہ ان کی نمازِ جنازہ پڑھی تھی بلکہ اُنہیں خود شہادت سمیت دفن کردیا تھا۔ علاوہ ازیں اس میں کئی ایسی باتیں اوربھی ہیں جو اس روایت کے شاذ ہونے پر دلالت