کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 123
فلان کے ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کسی طرح سے برابری نہیں ، ہمارے مقتول تو زندہ ہیں اور رزق دیئے جاتے ہیں جبکہ تمہارے مقتول دوزخ میں عذاب دیئے جارہے ہیں ۔ ابوسفیان نے کہا: قوم میں کچھ افراد کے ناک، کان کاٹے گئے ہیں اور یہ ہمارے سرکردہ جنگجوؤں کاکام نہیں ہے، نہ میں نے اس طرح کرنے کا حکم دیا ، نہ اس طرح کرنے سے روکا اور نہ میں نے اسے پسند کیا اور نہ ہی بُرا سمجھا اور نہ تو یہ منظر مجھے بُرا لگا اور نہ ہی اچھا ۔ راوی کہتا ہے کہ جب اُنہوں نے دیکھا تو حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا پیٹ پھاڑا گیاتھا اور ہند نے ان کاجگر چبایا، لیکن اسے نگل نہ سکی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا اس نے اس سے کچھ کھایا ہے؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے جواب دیا: نہیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ وہ حمزہ رضی اللہ عنہ کے بدن کے کسی جز کو آگ میں داخل کرے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کو سامنے رکھ کر ان کی نمازِ جنازہ پڑھی، اسی دوران ایک انصاری شہید لایا گیا اور اسے سیدنا حمزہ کے پہلو میں رکھ دیا گیا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بھی نمازِ جنازہ پڑھی، پھر انصاری کو اُٹھالیاگیا اورسیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دیاگیاپھر دوسرے شہیدانصاری کولایا گیا اور اسے حمزہ رضی اللہ عنہ کے پہلومیں رکھ دیا گیا اور ان پر نمازِ جنازہ پڑھی گئی پھر اسے اًٹھا لیاگیا اور حمزہ رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دیا گیا یہاں تک کہ اس روزسیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ پر ستر مرتبہ نمازِ جنازہ پڑھی گئی۔ ‘‘ یہ طویل حدیث جسے محدثِ مصر علامہ احمد شاکر نے سہواً صحیح قرار دیا ہے ، یہ دو اعتبار سے ضعیف بھی ہے اور شاذ بھی اور منکربھی ہے۔ضعیف تو اس اعتبار سے کہ اس روایت کے راوی امام شعبی کا حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں ہے۔ جیسا کہ امام ابو محمد عبدالرحمن بن حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ ابوحاتم رازی سے سنا ، وہ فرماتے تھے کہ شعبی نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں کیا اور شعبی رحمہ اللہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے جو کچھ بیان کریں گے، وہ مرسلا ًہی ہوگا۔ البتہ حضرت مسروق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا کرتے تھے۔ (دیکھئے ’کتاب المراسیل‘: ۶ / ۵۹۱) اس بنا پر یہ روایت منقطع ثابت ہوئی۔ مزید برآں اس حدیث میں عطا بن سائب کی وجہ سے بھی ضعف ہے۔ چنانچہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ اپنی تاریخ میں اس روایت کوذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں : تفردبہ أحمد وھذا إسناد فیہ ضعف أیضا من جھۃ عطاء بن