کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 119
۲۱۔سرکاری وکلاء کی کارکردگی بہتر بنائی جائے، سیشن کے سرکاری وکلاء کا ٹھیکیداری نظام ختم کیا جائے کیونکہ وہ زیادہ تر اپنے ذاتی مقدمات میں زیادہ محنت اور وقت صرف کرتے ہیں اور سرکاری مقدمات کے لیے فیس کم ہونے کی بناء پر زیادہ توجہ نہیں دیتے۔ انہیں کل وقتی وکیل مقرر کیا جائے، تاکہ وہ ان مقدمات پر توجہ دے سکیں اور انہیں اچھی تنخواہیں اور مراعات دی جائیں تاکہ وہ دل جمعی سے کام کرسکیں اور بدعنوانی میں ملوث نہ ہوں ۔
۲۲۔تعزیراتِ پاکستان، جو مغربی رنگ لیے ہوئے ہے اس کی جگہ اسلامی حدودو تعزیرات نافذ کی جائیں ۔ تعزیراتِ پاکستان میں مقدار کے لحاظ سے سزائیں بہت کم ہیں ، خصوصاً کوڑوں کی سزا سواے حدود آرڈیننس کے شامل نہیں ہے۔ اسلامی قوانین کے مطابق حاکم، سرکاری اہلکار وغیر ہ سب کے سب عدالت کے سامنے جواب دہ ہیں جب کہ مغربی قوانین کے مطابق سربراہِ مملکت، وزیر اعظم، وزرائے اعلیٰ ، گورنر کے خلاف تو عدالتیں کاروائی نہیں کرسکتیں جب کہ سرکاری افسروں کے لیے پہلے مرکز یا صوبائی حکومتوں سے اِجازت لینا پڑتی ہے جو کہ عدل وانصاف کے تقاضوں کے منافی ہے،لہٰذا ضروری ہے کہ ایک عام آدمی سے لے کر سربراہِ مملکت تک شہریوں اورحکام کو عدالت کے سامنے جوابدہ بنایا جائے۔ایسی تمام مستثنیات خواہ تعزیراتِ پاکستان، ضابطہ فوجداری یا آئین میں جومود ہیں منسوخ کی جائیں تاکہ یکسانیت او ر مساوات پیدا ہو،تاکہ عدل وانصاف میں تمام اَفراد برابر ہوسکیں ۔ [1]
یہی اسلام کی تعلیم اور اسلامی عدل کا طرۂ امتیاز ہے۔