کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 118
۱۶۔بعض وکلا اپنے مؤکلین کے فائدے کے لئے تاخیری حربوں کا سہارا لیتے ہیں ،اگر ایک جج چاہے تو ان چیزوں کو بڑی آسانی سے کنٹرول کرسکتا ہے۔
۱۷۔ترقی یافتہ ممالک میں وکلا گروپ کی شکل میں پریکٹس کرتے ہیں ۔اس طرح کسی وکیل کی بیماری یا چھٹی کو وجہ سے کیس کی سماعت پر کوئی اثرنہیں پڑتا۔ اس لیے پاکستان میں بھی وکلا گروپ کی شکل میں اگر پریکٹس کریں گے تو ایک وکیل کی غیر حاضری میں دوسرا وکیل کیس کو چلاسکے گا اور مقدمات کا فیصلہ بروقت ہوجائے گا۔
۱۸۔محکمہ پولیس کی اصلاح کی جائے،کیونکہ ملزمان عدالت میں پہنچ کرنا کارہ شہادتوں کی ناقص کاروائیوں اور قانونی موشگافیوں کے ذریعے بری ہوجاتے ہیں ۔ اصل ملزم کے گرفتار ہونے اور سزا یاب ہونے کا مکمل انحصار پولیس کی تفتیش اور عدالت میں مقدمہ کی پیروی پر منحصر ہے۔ اگر صحیح خطوط پر تفتیش ہوا اور صحیح معنوں میں مقدمہ کی پیروی ہو تو ملزم سزا سے بری ہوجاتے ہیں ۔ پولیس مقدمہ درج ہی نہیں کرتی۔ مدعی مقدمہ درج کرانے کے لیے سفارش کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے، اکثر اصلی مجرم پولیس کی غلط تفتیش،غلط کاروائی، غلط رپورٹنگ اور عدم پیروی سے سزا سے بچ جاتے ہیں ۔
۱۹۔جیلوں کی اصلاح کی جائے، جیل میں قیدیوں کو رکھنے کا مقصد ان کی اصلاح کرنا ہے۔ ان کے کیے کی سزا دینا اور دوسروں کو عبرت دینا وغیرہ۔ اسلامی نظام میں جیل کا مقصد اصلاح وتربیت گاہ اور عبرت گاہ ہے۔ جیل سے سزا کاٹ کر ایک صحیح انسان بن کر باہر نکلے اور وہ معاشرے کے لیے پریشانی کا باعث نہ ہواور ناسور نہ رہے جب کہ ہمارے ہاں اکثر لوگ جیل سے واپسی پر بڑے مجرم بن کر آتے ہیں ۔
۲۰۔جیل حکام ملزموں کو بروقت پیشی پر پیش نہیں کرتے جس کی وجہ سے بے گناہ اپنے ناکردہ گناہ کی سزا کاٹنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ جیل میں قیدیوں کی اخلاقی، مذہبی،علمی اور فنی تعلیم وتربیت کے لیے کوئی معقول بندوبست نہیں کیا جاتا اور نہ ہی ان کی صحت وصفائی اور خوراک کا خیال رکھا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں تھانے اور جیلیں مجرم کو مزید مجرمانہ ٹریننگ مہیا کرنے کے ادارے کا کام کرتے ہیں ۔