کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 117
۱۰۔ایف آئی آر درج کرنا انتہائی آسان ہو اور پولیس کی طرف سے ایف آئی آر درج ہونے کے پندرہ دن کے اندر اندر مقدمہ کا چالان عدالت میں پیش ہونا چاہیے، خواہ چالان مکمل ہو یا نامکمل ہو۔ عدالت چاہے تو چالان مکمل کرنے کے لیے مزید ایک مہینہ دے سکتی ہے۔ مقدمے کی مکمل سماعت ایک مہینے کے اندر اندر شروع کی جائے اور اس کی سماعت سے پہلے ساری کاغذی کاروائیاں مکمل ہونی چاہیے۔
۱۱۔مقدمات کی تاریخوں کا موجودہ طریقہ کار بالکل ختم کیا جانا چاہیے۔ ایک دفعہ مقدمہ کی سماعت شروع ہوجائے تو پھر یہ سماعت مسلسل اس وقت تک جاری رہنی چاہیے جب تک تمام گواہوں کے بیانات اور وکیلوں کی بحث ختم نہ ہوجائے۔ مقدمہ کی سماعت مکمل ہونے کے پندرہ دِن کے اندر اندر فیصلہ سنانا ضروری ہو۔ اس طریقے سے کوئی بھی مقدمہ چھ مہینے سے زیادہ نہیں لے گا۔کوشش کی جائے کہ مقدمہ ایک ماہ میں ختم ہو۔
۱۲۔اگر کسی تحصیل ہیڈکوارٹر میں ایک فوجداری اور ایک دیوانی سیشن جج پر کام کا بوجھ زیادہ ہے تو وہاں دویادو سے زیادہ سیشن ججوں کو تعینات کیا جائے۔ مقدمات کی سماعت مختصر اور آسان ہو۔
۱۳۔وکلا کی فیسیں عام آدمی کو انصاف کی راہ سے دور رکھتی ہیں ۔ پاکستان میں غربت انصاف کی راہ میں سب سے بڑی روکاوٹ ہے۔ وکلا صاحبان کی فیسیں اس قدر زیادہ ہیں کہ ایک غریب آدمی کے لیے انصاف حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی طرف سے وکیل کے اخراجات ادا کرے۔
۱۴۔وفاقی محتسب کے ادارے کو مزید فعال بنایا جائے۔ جہاں صرف ایک سادہ درخواست لکھ دینے سے انسان کے لیے انصاف کا راستہ نکل آتا ہے جس سے سرکاری محکموں کی ناانصافیوں کے خلاف عام آدمی کو انصاف مہیا ہونے میں آسانی پیدا ہوگی۔
۱۵۔تمام عدالتوں کے ججوں کے لیے یہ اُصول اختیار کیا جائے کہ اگر وہ مقرر وقت کے اندر کیس کا فیصلہ نہیں کریں گے تو یہ ان کا ایک ڈِس کریڈٹ شمار ہو۔ ان کو لازماً انصاف کی فوری فراہمی کا بندوبست کرنا چاہیے۔ ججوں کو اضافی وقت صرف کرنے کا اضافی معاوضہ دیا جائے۔ اس سے ان کی استعدادِ کار میں اضافہ ہوگا۔