کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 116
۲۔اسلامی نظریاتی کونسل کو مزید فعال بنایا جائے۔ اگر کسی قانون کی کوئی دفعہ سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کی نظرمیں فیصلے میں اس کا تذکرہ کردے اور متعلقہ حصہ اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیج دے تو کونسل کے لیے لازمی ہو کہ وہ ایک مہینے کے اندر اندر اپنی رپورٹ اسمبلی اور کورٹ کو بھیج دے۔
۳۔عدالتی آسامیاں اہل، قابل، دیانت دار ،محنتی اور اسلامی قانون کے ماہرین سے پر کی جائیں ۔ سفارش اور اقربا پروری عدلیہ کے لیے جائز نہیں ہے بلکہ ایک جج کے لیے ضروری ہے کہ قرآن وسنت اور فقہ کا ماہر ہو اور جدید تعلیم سے آشنا ہو، کیونکہ عدل کی میزان کتاب وسنت ہیں اور جج انہی کی بنا پر فیصلہ کرکے اپنی ذمہ داری سے عہدہ برا ہوسکتا ہے۔
۴۔شہادت کے نظام کو بہتر بنایا جائے۔ ملزم کو عدالت میں بروقت پیش کیا جائے۔ اس کے ساتھ گواہان اور مثل مقدمہ پیش کیا جائے تاکہ تاخیر نہ ہو، بلاجواز ریمانڈ نہ دیا جائے۔ جو عدالت ملزم کو جیل بھیجے، اس کی نگہبان بھی وہی عدالت ہو جو اس کا ریکارڈ رکھے اور اُسے عدالت میں منگوانے کا انتظام کرے یا جیل میں جاکر اس کا فیصلہ کردے۔
۵۔عدلیہ اور انتظامیہ کو الگ الگ کیا جائے۔ انتظامیہ کی ذمہ داری امن وامان کا قائم رکھنا اور ریونیواکٹھا کرنا ہو جبکہ عدالتیں صرف عدالتی کام کریں ۔ عدالتی افسران کیلئے ایل ایل بی، قرآن وحدیث ، فقہ اسلامی اور مسلم قاضیوں کے فیصلوں سے آگاہی لازمی قرار دی جائے۔
۶۔جج صاحبان کو خصوصی مراعات دی جائیں ۔ان کی تنخواہوں اور مراعات کو معاشی ومعاشرتی ضروریات کے مطابق کیا جائے۔ جج صاحبان کو تحفظ فراہم کیا جائے تاکہ وہ بلا خوف و خطر فیصلے کرسکیں ۔
۷۔عدالتوں کو سیاسی اور حکومتی دباؤ سے آزاد رکھا جائے تاکہ وہ بلاخوف وخطر فیصلے کرسکیں ۔
۸۔عدالتوں کے اختیارات میں اضافہ کیا جائے۔ قوانین میں تبدیلی کی جائے تاکہ سربراہِ مملکت، اعلیٰ حکام، وزرا اور سفرا وغیرہ پر مقدمہ چلانے کے لیے اجازت کی ضرورت نہ رہے۔ امتیازی سلوک کو ختم کیا جائے اور قانون کی نظر میں عام شہری حکمران طبقے کے برابر ہو۔
۹۔جرائم میں ملوث یا غفلت ورشوت ستانی کے مرتکب افسران اور اہلکاروں کو عبرتناک سزادی جائے۔