کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 115
۱۰۔عدالتوں کی تعداد میں کمی کی وجہ سے ایک عدالت میں کافی تعداد میں مقدمات زیر سماعت رہتے ہیں جس کی وجہ سے عدالتیں ان پر مکمل توجہ نہیں دے پاتیں ۔
۱۱۔عدالتوں پر حکومتی وسیاسی دباؤ ڈالا جاتا ہے ۔جس کی بنا پر عدالتیں اپنے آزادانہ فیصلوں میں دشواری محسوس کرتی ہیں ۔
۱۲۔عدالتی افسران، اہلکاروں کی تنخواہیں اور مراعات معاشرتی ضرورتوں سے ہم آہنگی نہیں رکھتیں ۔
۱۳۔عدالتوں کے جج صاحبان کو تحفظ فراہم نہیں کیا جاتااور ان کی زندگیوں کو ہر وقت خطرہ لاحق رہتا ہے۔
۱۴۔ہمارے عدالتی نظام کے اندر ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ایک ملک کے اندر مختلف قوانین چل رہے ہیں ، کہیں انگریزی قوانین کے مطابق فیصلہ ہورہا ہے، کہیں شریعت کے مطابق ،ایک ہی کیس میں اپیل کے لیے اتنے سارے فورم ہیں کہ فیصلے پر عمل درآمد دشوار ہو جاتاہے۔[1]
۱۵۔سب سے بڑھ کر یہ کہ کسی اسلامی ریاست میں قرآن وسنت ہی عدل وانصاف کی بنیاد اور میزان قرار پا سکتے ہیں ، جبکہ خدا بیزار انسانی قوانین معاشرے میں حقیقی عدل وانصاف قائم کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں ۔ مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں اللہ اور اس کے رسول کو ہی اپنا حکم تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی او رگنجائش موجود نہیں ہے۔ اس لحاظ سے قیام پاکستان کی اساس کو مد نظر رکھتے ہوئے مسلمانوں کی بنیادی ضرورت یعنی نفاذِ شریعت کو مد نظر رکھنا ضروری ہے اور یہی پاکستان میں عدل کی ناگفتہ بہ حالت کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
پاکستان کے عدالتی نظام کی اصلاح کے لیے تجاویز
سب سے پہلی تجویز یہ ہے کہ اسلامی نظامِ عدالت رائج کیا جائے۔ تحصیل اور ضلعی سطح پر قاضی کو رٹس قائم کی جائیں ۔ اور ہر تھانہ میں قاضی کورٹ ہو، جہاں سرکاری وکیل تعینات ہوں ، سیکولر بنیادوں پر نافذ قوانین کو اولین فرصت میں ختم کرکے شریعت اسلامیہ کا نفاذ کیا جائے۔
۱۔وفاقی شرعی عدالت کو سپریم کورٹ میں ضم کرکے اس کے ججوں کو سپریم کورٹ کے ججوں کے برابر تسلیم کیا جائے، ہر ہائی کورٹ میں کم از کم ایک تہائی تعداد مفتیوں کی ہو۔