کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 114
موجودہ عدالتی نظام کی خامیاں
۱۔اسلامی عدالتی نظام کے برعکس پاکستان میں مروّجہ نظام ہائے عدالت آزاد وخود مختار نہیں ہے۔ پاکستان کے تمام دساتیر جب بنائے گئے، عدالتو ں میں عدلیہ کی آزادی اور خودمختاری کے وعدے تو کیے گئے مگر ان پر عمل درآمد نہ کیا گیا۔ ۱۹۷۳ء کے آئین میں بھی اس بات کی تائید توموجود تھی مگر تاحال اس پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔
۲۔پاکستان میں عدالتیں سربراہِ مملکت ،وزیر اعظم، گورنر اور وزرا کے خلاف مقدمات ازخود چلانے کی مجاز نہیں ہیں ۔ اعلیٰ حکام کے خلاف حکومت سے پیشگی اجازت حاصل کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح غیر ملکی سفرا کے خلاف مقدمات بھی نہیں چلائے جاسکتے، یہ امتیازی سلوک کی واضح مثالیں ہیں۔
۳۔ججوں کی اسامیاں بعض دفعہ میرٹ کی بجائے سیاسی بنیادوں پر پُرکرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حکومتیں عدلیہ کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش میں لگی رہتی ہیں ۔ ماتحت عدالتوں میں مجسٹریٹ انتظامیہ کے ماتحت ہوتے ہیں ۔
۴۔پاکستان میں مروّجہ عدالتی نظام انتہائی پیچیدہ ہے جس کی وجہ سے مقدمات طول پکڑتے ہیں اور نتیجتاً ملزمان سزا سے بچ نکلتے ہیں ۔
۵۔شہادت کا نظام انتہائی ناقص ہے، گواہ عدالتوں میں پیش ہی نہیں ہوتے۔ پولیس چالان داخلِ عدالت کرنے میں تاخیر کرتی ہے۔ گواہوں کی جانچ اور پرکھنے کا کوئی معیار ونظام مقرر نہیں ہے۔
۶۔ملزمان کی طرف سے سرکاری و کلا پیروی نہیں کرتے ہیں اور ذاتی مفادات، حکومتی پالیسی کو ترجیح دیتے ہیں ۔ نیز صحیح طور پر مقدمات کی پیروی کرنے سے قاصر ہوتے ہیں ۔
۷۔ماتحت عدالتیں بلاجواز ملزم کو ریمانڈ کے ذریعے حوالہ پولیس کردیتی ہیں ۔
۸۔جیل سے قیدیوں کو پیش کرنے کا نظام ناقص ہونے کی وجہ سے عدالتیں ہر تاریخ سماعت پر سماعت ملتوی کرنے پر مجبور ہوتی ہیں ۔
۹۔ماتحت عدالتوں کے افسران انتظامی افسران ہونے کی وجہ سے لاء اینڈ آرڈر کنٹرول کرنے میں مصروف رہتے ہیں جس کی وجہ سے عدلیہ سے متعلق اُمور تاخیر کا شکار ہوجاتے ہیں ۔