کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 109
سکے۔ (آئین پاکستان۱۹۶۲ء) صوبائی عدالتی نظام: یہ قرار دیا گیا کہ ایک ہائی کورٹ کے جج کو صدر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور متعلقہ صوبے کے گورنر سے مشورہ کے بعد مقرر کریں گے۔ ہائی کورٹ کے جج کے لیے پاکستان کا شہری ہونا لازم قرار دیا گیا۔ ۱۹۷۳ء کا آئین اور عدلیہ: دستورمیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کااسلام کو سرکاری مذہب قرار دیا گیا ۔ اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام عمل میں لایاگیا اور عدلیہ کی آزادی کو برقرار رکھا گیا۔ ۱۹۷۳ء کے آئین میں ترامیم اور عدالتی نظام: تیسری ترمیم۱۹۷۵ء: اس ترمیم کے ذریعے امتناعی نظر بندی کے قوانین میں ردّوبدل کیا گیا۔ چوتھی ترمیم۹۷۵ء امتناعی نظربندی کے قوانین میں مزید ردّوبدل کی گئی۔ پانچویں ترمیم۱۹۷۶ء چیف جسٹس سپریم کورٹ و ہائی کورٹس اور جج صاحبان کے عہدہ کی معیاد ریٹائر منٹ کی شرط میں تبدیلی کی گئی۔چھٹی ترمیم سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان ہائی کورٹ کے اختیارات میں کمی کی گئی۔ وفاقی شرعی عدالت: ۱۹۸۰ء میں اسلامی قوانین کے نفاذ کے لیے وفاقی شرعی عدالت کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ بارہویں ترمیم۱۹۹۱ء:گھناؤنے،وحشیانہ جرائم میں ملوث افراد کے مقدمات کی تیزی سے سماعت کے لیے انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت قائم کی گئی۔ پاکستانی عدالتوں کی تقسیم اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عدالتوں کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: 1. ضابطۂ فوجداری کے تحت فوجداری عدالتوں پر قائم نظام عدالت 2. ضابطۂ دیوانی کے تحت دیوانی عدالتوں کا نظام 1. عدالت ِ فوجداری کی ذمہ داری: مجموعہ ضابطہ فوجداری تعزیری قوانین کا ایک مکمل ضابطہ ہے جو ایسے جرائم سے متعلق ہے جو ملکی معاشرے پر بالواسطہ یا بلاواسطہ اثر انداز ہوتے ہیں ۔ مثلاًقتل غارت گری، چوری، ڈکیتی، اغوا ،دھوکہ دہی اور بدکاری وغیرہ۔ 2. عدالت ِ دیوانی کی ذمہ داری:وہ مقدمے جو ترکے ،جائیداد کی تقسیم، جائیدادوں کے رہن، خریدوفروخت اور انتقال وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں ، دیوانی مقدمات کہلاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ بھی چند ایسی عدالتیں ہیں جو پاکستان میں انصاف فراہم کرنے کا ذریعہ بنتی