کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 108
اس لیے یہ بات ہرگز جائز نہیں ہے کہ عوام کے لیے انصاف کے حصول کو مشکل بنادیا جائے اور ایسے قواعدوضوابط وضع کیے جائیں جن سے عام آدمی اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے دوسروں کا دست نگر ہو کر رہ جائے اور عدل وانصاف تک نہ پہنچ سکے۔ پاکستان میں عدل وانصاف کے ادارے ۱۵/جولائی۱۹۴۷ء کو برطانوی پارلیمنٹ میں مسودہ ’قانون استقلالِ ہند‘ منظور ہوا۔ ۱۸/جولائی کو شاہِ انگلستان نے اس کی منظوری دی۔ عارضی دستور کے طور پر کام دینے کے لیے ’گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵ء‘ کی ترمیم کی گئی جو اگست۱۹۴۷ء سے دونوں نوآبادیوں میں ’انڈیا آرڈر۱۹۴۷ء ‘کی رو سے نافذ کیا گیا۔[1] فیڈرل کورٹ کا قیام:ایکٹ۱۹۳۵ء کے تحت ایک فیڈرل کورٹ قائم کیا گیا جو صوبوں اور ریاستوں کے قانونی تصفیوں کا ذمہ دار تھا۔ یہ ایک چیف جسٹس اور چھ ججوں پر مشتمل تھا۔ اس کا کام یہ بھی تھا کہ صوبوں اور فیڈرل اسمبلی کے دائرہ کار کو آئینی حدود سے باہر نہ نکلنے دے۔ [2] چنانچہ قیام پاکستان کے بعد ۱۹۳۵ء کے ایکٹ کو ہی چند ترامیم کرکے پاکستان کے عبوری آئین کے طور پر اختیار کیا گیا۔۲۲/مارچ۱۹۴۹ء کو لیاقت علی خاں کی تحریک پر آئین ساز اسمبلی نے مولانا عثمانی کے لیاقت علی خاں وسردار عبدالربّ نشتر کے ساتھ مل کر اقتدارِ اعلیٰ، جمہوریت، بنیادی حقوق اور اقلیتوں کے حقوق سے متعلق قرار دادِ مقاصد مرتب کی اور اسے منظور کر کے پاکستان کی نظریاتی سمت کا تعین کردیا۔[3] ۱۹۵۶ء کے تحت سپریم کورٹ،پاکستا ن کا قیام عمل میں آیا اور اسکو اعلیٰ اختیارات دئیے گئے۔ مرکزی عدالتی نظام:۱۹۶۲ء کے آئین کی نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ عدلیہ آزاد تھی ۔آئین کی رو سے پاکستان میں ایک سپریم کورٹ کا قیام عمل میں لایا گیا جو ایک چیف جسٹس اور دیگر ججوں پر مشتمل تھا اور جن کی تعداد کا تعین بذریعہ قانون کیا گیا۔سپریم کورٹ پاکستان کی سب سے اعلیٰ ترین عدالت تھی۔ آئین کے تحت سپریم کورٹ کو اس کا اختیار تھا کہ وہ مرکزی مقننہ کے کسی ایکٹ کے احکام اور مرتب کردہ قواعد کے تابع کسی فیصلے یا حکم کی، جو اس نے صادر کیا ہو، نظرثانی کر