کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 107
حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے درآنحالے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے۔ اُنہوں نے سوال کیا میرے پڑوسیوں کو کس قصور میں گرفتار کیا گیا ہے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دو مرتبہ سے صرفِ نظر کیا۔ تو اس شخص نے پھر کچھ کہا ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے پڑوسیوں کو چھوڑدو۔‘‘ نبوی معاہدات کا مجموعہ ’میثاقِ مدینہ‘ رائے اور مسلک کی آزادی کا بہترین نمونہ ہے۔ اس کے علاوہ پورا خطبہ حجۃ الوداع انسانی حقوق کے تحفظ کا عظیم اوّلین چارٹر ہے۔ 4. قانون کی حکومت اسلامی نظامِ عدل وقضا کی تیسری اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہاں پر آزاد، غلام، امیر، غریب، کمزور، توانا، کالے، گورے یا حاکم ومحکوم کی کوئی تفریق نہیں اور قانون کی نظر میں سب کے سب برابرکی حیثیت کے مالک ہیں ۔اس نظام میں بادشاہ یا امیر مملکت بھی عدالت کے روبرو ویسے ہی کٹہرے میں کھڑا ہوگا جس طرح ایک عام آدمی کھڑا ہوتا ہے اور اپنے مقدمے کی پیروی کرتا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ کے ساتھ مقدمہ کے وقت امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب جب حضرت زید رضی اللہ عنہ بن ثابت کی عدالت میں پہنچے تو آپ کو دیکھ کر حضرت زید رضی اللہ عنہ نے درمیان میں فرش پر جگہ کشادہ کردی اور عرض کیا: امیر المومنین! یہاں تشریف رکھئے۔ یہ بات آپ رضی اللہ عنہ کو ناگوار گزری جس پر آپ نے فرمایا: ھٰذا أوّل جورٍ جریت في حکمک ولکن أجلس مع خصمي‘‘[1] ’’یہ پہلا ظلم ہے جو تمہارے فیصلے میں ہوا ہے میں تو اپنے مدمقابل کے ساتھ ہی بیٹھوں گا ۔‘‘ 5. آسان اور سستا انصاف حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو جب حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو موسیٰ کے ہمراہ یمن کا گورنر بنا کر روانہ فرمایا تو دونوں کو وصیت فرمائی : ’’یسّرا ولا تُعسّرا وبشرا ولا تنفرا وتطاوعا‘‘[2] ’’نرمی برتنا، دشواری پیدا نہ کرنا،خوشخبری سنانا، نفرت انگیزی نہ کرنا اور باہم متحد رہنا۔‘‘