کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 106
ہے۔ مسائل کے استنباط اور قوانین کے اخذ واستفادہ کے لئے قرآن وسنت کی حیثیت اُصول استناد کی ہے کہ جنہیں دین میں دلیل شرعی اور حجت ہونے کی بنا پر سند کے طور پیش کیا جاتا ہے جبکہ اجماع وقیاس اجتہاد کے بنیادی اُصول قرار پاتے ہیں کہ جن کی رہنمائی میں مجتہد اور فقیہ مسائل کے لیے محنت اور کوشش کرتا ہے۔
2. انفرادی حقوق کی ضمانت
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس معیاری نظامِ عدل وقضا کو دنیا کے سامنے پیش فرمایا، اس کی دوسری اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس نظام کے ذریعہ مملکت کے ہر فرد کے حقوق کی مکمل طور پر ضمانت دی گئی ہے۔ اسی لیے یہ بات اربابِ حکومت کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ مملکت کے ہر باشندے کی عزت وآبرو، جائیداد ومال جسم وجان اور چادروچاردیواری کے تحفظ کا اہتمام کریں ۔ اور عدل وانصاف کی بنیاد پر ہر اس شخص کے حقوق کی پاسداری کا بندوبست کریں جو اس مملکت کا شہری ہے ورنہ وہ نااہل تصورہوں گے اور اپنی کوتاہیوں اور فرائض سے غفلت پر اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچ نہیں سکیں گے۔ جیسا کہ ارشاد ہے
﴿إِنَّ اللہ یَاْمُرُکُمْ اَن تُؤَدُّواْ الاَمَانَاتِ إِلٰی اَہْلِہَا وَإِذَا حَکَمْتُم بَیْْنَ النَّاسِ اَن تَحْکُمُواْ بِالْعَدْل﴾[1]
’’بلاشبہ تم کو اللہ اس بات کا حکم دیتا ہے کہ تم اہل حقوق کو ان کے حقوق پہنچادو اور جب لوگوں میں تصفیہ کرنے بیٹھو تو انصاف کے ساتھ تصفیہ کرو۔‘‘
3. شخصی آزادی
اسلامی عدل وانصاف کی ایک بہت ہی خوبصورت خوبی شخصی آزادی کا ہونا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر فرد کو ہر قسم کے حاکمانہ جبرو استحصال سے نجات دلائی۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی واقعہ شخصی آزادی کے تحفظ کے لیے کافی ہے:
عن بھز بن حکیم عن أبیہ عن جدہ أن أخاہ أو عمّہ قام إلی النبي صلی اللہ علیہ وسلم وھو یخطب فقال: جیراني بما أخذوا؟ فأعرض عنہ مرتین ثم ذکرما شاء فقال النبي صلی اللہ علیہ وسلم ((خلُّوا لہ عن جیرانہ)) [2]
’’بہزبن حکیم رضی اللہ عنہ اپنے باپ سے اوروہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ وہ (والد کے بھائی یعنی چچا)