کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 105
عن أبي ھریرۃ أن رجلاً أتی النبي صلی اللہ علیہ وسلم فقال: یارسول اﷲ! ولد لي غلام أسود، فقال:(( ھل لک من إبل ؟)) قال: نعم قال: ((ما ألوانھا؟)) قال: حمر، قال:(( ہل فیھا من أورق؟)) قال نعم۔قال: ((فأنّٰی ذلک؟)) قال: لعلہ نزعہ عِرق قال: ((فَلَعلَّ ابنک ھذا نزعہ))[1]
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے ہاں سیاہ رنگ کا بچہ پیدا ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں ؟ کہا: ہاں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کے رنگ کیسے ہیں ۔ اس نے کہا : سرخ تو فرمایا ان میں کوئی ازرق(سیاہی مائل)ہے؟ اس نے کہا: ہاں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ کہاں سے آیا؟اس نے کہا: شاید اوپر کی نسل میں کوئی چیز ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے بیٹے میں بھی شاید اسی طرح اوپر کی نسل سے کوئی چیز آگئی ہو۔‘‘
عن عبداللہ أن رجلا من الأنصار قذف امرأتہ فاحلفھما النبي صلی اللہ علیہ وسلم ثم فرَّق بینھما[2]
’’حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انصار کے ایک مرد نے اپنی بیوی پر تہمت لگائی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم لی ، پھر دونوں میں تفریق کرادی۔‘‘
اسلامی نظامِ عدل وقضا کی خصوصیات
اسلام کی اس سربلندی اور عظمت کی سب سے بڑی وجہ عدل وانصاف پر مبنی اسلام کا وہ نظامِ قضا ہے جس کے تحت اسلامی مملکت کے ہرشہری کو آسان اور سستا انصاف ہر آن میسر آتا ہے کہ ہر کوئی بغیر کسی دِقت اور پریشانی کے اپنے حقوقِ ذاتی کا تحفظ آسانی سے کرسکتا ہے۔ اسلام کا یہ نظام اپنی جگہ بے مثال ہے اور ایسی خصوصیات کا حامل کہ جن میں یہ منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ ذیل میں انہی خصوصیات کا بیان ہے :
1. عدلیہ کی اسلامی اساس
کوئی بھی عدلیہ اپنے وجود کے اعتبار سے بیکار محض ہے اگر اس کی پشت پر رہنمائی کے لیے کوئی محکم اساس نہ ہو ، دوسرے لفظوں میں عدل کا معیار اور مستحکم میزان انصاف کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ اسلامی عدلیہ کی محکم اساس قرآن و سنت اور اجماع وقیاس کے اُصولِ اربعہ پر مبنی