کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 104
عائلی زندگی کے بارے میں عدل نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
عن ابن عباس قال: إن جاریۃ بکرًا أتت النبی فذکرت أن أباھا زوَّجھا وھي کارھۃ فخیَّرھا النبي صلی اللہ علیہ وسلم [1]
’’ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک کنواری لڑکی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ اس کے باپ نے اس کی ناپسندیدگی کے باوجود اس کا نکاح کردیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیار دے دیا کہ چاہے تو اپنا نکاح باقی رکھے چاہے توڑ دے۔‘‘
عن ابن عباس قال: جاء ت امرأۃ ثابت بن قیس بن شماس إلی النبي صلی اللہ علیہ وسلم فقالت: یارسول اﷲ! ما أنقم علی ثابت في دین ولا خلق، إلا أنی أخاف الکفر۔فقال رسول اﷲ: فتردین علیہ حدیقتہ قالت: نعم فردَّت علیہ وأمرہ ففارقھا[2]
’’ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ثابت بن قیس بن شماس کی بیوی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں ثابت کے دین اور اخلاق میں کوئی عیب چینی نہیں کرتی۔ البتہ مجھے اندیشہ ہے کہ میں اس کی فرمانبرداری نہیں کر سکوں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تو اس کا باغ اس کو لوٹا دے گی؟ کہنے لگی: ہاں ۔ چنانچہ اس نے باغ لوٹا دیا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی جدائی کا فیصلہ دے دیا۔‘‘
طلَّق رکانۃ بن عبد یزید أخو بني المطلب امرأتہ ثلاثًا في مجلس واحد فحزن علیھا حزنًا شدیدًا فسألہ رسول اللہ کیف طلقتھا؟ فقال طلقتھا ثلاثًا فقال في مجلس تلک واحدۃ فارجعھا إن شئت قال فراجعھا[3]
’’رکانہ بن عبدیزید بنو مطلب کے بھائی نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دیں ۔ پھر اسے بہت افسوس ہوا۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پوچھا کہ تو نے کیسے طلاق دی تھی۔ اس نے کہا: میں تین طلاقیں دیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا ایک مجلس میں ؟ اس نے کہا: ہاں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تو ایک ہے، چاہے تو رجوع کرلے،پس اس نے رجوع کرلیا۔‘‘
لعان کے مقدمات میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بصیرت افروز ارشادات ملتے ہیں ۔مثلاً