کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 103
ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کے بارے میں حدیث میں آتا ہے کہ اُنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے زنا کا اعترافکیا: ’’فأمر بہ أن یُّرجم‘‘[1]’’پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے رجم کرنے کا حکم دیا‘‘ اور اُن کو رجم کردیا گیا۔ اسی طرح ایک حاملہ عورت کو بچے کی پیدائش کے بعد رجم کیاگیا۔ جب یہ ثابت ہوچکا تھا کہ اس نے زنا کا ارتکاب کیا ہے۔ ایک غیر شادی شدہ زانی کو سو کوڑے لگائے ، جبکہ اس کے خلاف زنا کا جرم ثابت ہوچکا تھا۔[2] نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص پیش کیا گیا جس نے صفوان بن اُمیہ کے کپڑے چوری کئے تھے۔ عدالتی جرح کے نتیجہ میں اس شخص کا جرم ثابت ہوگیا تو اسے ہاتھ کاٹنے کی سزا دی گئی۔[3] اسی طرح فتح مکہ کے وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مال دار عورت کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا: ’’عن عائشۃ قالت: کانت امرأۃ مخزومیۃ تستعیر المتاع وتجحدہ،فأمر النبي صلی اللہ علیہ وسلم بقطع یدھا‘‘[4] ’’حضرت ِعائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ مخزومی قبیلے کی ایک عورت چوری کرتی تھی اور پھر انکار کرتی تھی۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ ‘‘ دوسری روایت میں ہے کہ اس نے حضرت اُسامہ رضی اللہ عنہ کی سفارش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں بھیجی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اورفرمایا کہ پہلے لوگ اس لیے ہلاک ہوئے کہ اگر بڑا آدمی چور ی کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور کمزور آدمی کو سزا دیتے اور فرمایا: ((وأیم اللہ لو أن فاطمۃ بنت محمّد سرقت لقطعت یدہاˆ)) [5] ’’ اللہ کی قسم اگر فاطمہ بنت محمد چوری کرتی تو میں اس کابھی ہاتھ کاٹ دیتا۔‘‘ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چور کے ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرمایا جس نے دوسروں کا مال چرا لیا تھا۔ اور اس نے عدالت کے سامنے اقبالِ جرم کرلیا تھا۔ [6]