کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 102
لائی گئی جبکہ ابھی اس میں زندگی کی کچھ رمق باقی تھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((من قتلکِ، فلان قتلکِ؟)) فقالت: لا، برأسھا قال: ((من قتلک، فلان قتلک؟)) قالت:لا، برأسھا۔فرفعت رأسھا فقال لھا في الثالثۃ: ((فلان قتلکِ؟)) فخفضت رأسہا فدعا بہ رسول اللہ فقتلہ بین الحجرین[1]
’’فلاں شخص نے تجھے قتل کیا؟ اس لڑکی نے اپنے سرکے اشارے سے کہا: نہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا کس نے تجھے قتل کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تجھے فلاں شخص نے قتل کیا ہے؟اس نے پھر اپنے سرسے اشارہ کیا: نہیں ۔ تیسری بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پوچھا کہ فلاں شخص نے تجھے قتل کیا ہے؟ تو اس نے اپنا سر اثبات میں نیچے کردیا۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس یہودی کو بلوایا اور دوپتھروں کے درمیان رکھ کر اسے قتل کرادیا۔‘‘
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اُن کی پھوپھی ربیع بنت نضر نے انصارکی ایک لونڈی کا اگلا دانت توڑ دیا تو اس کے گھر والوں نے ان سے قصاص کا مطالبہ کیا۔یہ ان سے معافی کے طلب گار ہوئے، اُنہوں نے انکار کردیا۔اُنہوں نے دیت کی پیشکش کی تو اُنہوں نے اس کے لینے سے بھی انکار کردیا۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو اُنہوں نے کتاب اللہ کے ساتھ ان کے درمیان فیصلہ کردیا۔[2]
ایک دوسری روایت میں ہے کہ وہ جھگڑے کا فیصلہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں قصاص کا حکم دیا۔ربیع کے بھائی، انس رضی اللہ عنہ بن مالک کے چچا،انس رضی اللہ عنہ بن نضر نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ربیع کا اگلا دانت توڑیں گے؟اللہ کی قسم آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا دانت نہیں توڑیں گے۔ دوسری روایت میں ہے، آپ اس کا اگلا دانت نہیں توڑیں گے۔ جب کہ وہ اس لونڈی کے گھر والوں سے معافی اور دیت کا مطالبہ کرچکے تھے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے انس رضی اللہ عنہ : کتاب اللہ قصا ص کا مطالبہ کرتی ہے۔جب ربیع کے بھائی، جوانس رضی اللہ عنہ کے چچا اوراُحد کے شہید ہیں ، نے قسم اُٹھائی تو وہ لوگ راضی ہوگئے۔ اُنہوں نے معاف کردیا اور دیت قبول کرلی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے بعض بندے ایسے ہیں ، اگر وہ اللہ پر قسم ڈال دیں تو اللہ اسے ضرور پورا کرتا ہے۔[3]