کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 101
نہ تھا۔ چنانچہ کئی بار ایسا ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے خلاف غیرمسلم کے حق میں فیصلہ دیا مثلاً ایک روایت ہے کہ ایک یہودی کا ایک مسلمان پر قرض تھا۔ اس نے غزوۂ خیبر کے دوران تقاضا شروع کردیا ۔مسلمان نے مہلت مانگی، مگر یہودی نے مہلت دینے سے انکار کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقروض کو فوری ادائیگی کا حکم دیا اور تعمیل نہ ہونے کی صورت میں قرض خواہ کو اس کے بعض کپڑے لے جانے کی اجازت دی۔ [1] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ منورہ آنے سے پہلے بنو قریظہ اور بنونضیر کے مابین قصاص اور دیت کے معاملات میں فرق تھا۔ چنانچہ اگر کوئی نضیری(بڑی قوم کا) کسی قرظی(چھوٹی قوم کے کسی شخص) کو ہلاک کردیتا تو نصف دیت ادا کی جاتی اور برعکس صورت میں پوری لازمی سمجھی جاتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ناانصافی کو ختم کردیا اور دونوں کے مابین اس بارے میں مساوات قائم فرمائی۔[2] فتح خیبر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھیتی باڑی کا سارا کام یہودیوں کے سپرد کردیا۔ یہودیوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ مسلمان اپنا حصہ لینے کے بعد بھی ان کی فصلوں اور سبزیوں کو نقصان پہنچاتے ہیں ۔اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اقلیت(معاہدین) کا مال مسلمانوں کے لیے حلال نہیں ہے۔اس کے بعد مسلمان ان سے سبزی وغیرہ بھی قیمتاً خریدتے تھے۔[3] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر معاملے میں عدل سے کام لیا حتیٰ کہ کسی معاہدے میں حد سے تجاوز کرنے سے روکا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو کسی معاہدے میں بھی ظلم کو برداشت نہیں کیا۔رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمھیں کسی قوم سے جنگ لڑنی پڑے اور تم ان پر غالب آجاؤ اور وہ تم سے چند شرائط پر صلح کرلے تو تمہارے لیے ان مقررہ شرائط سے تجاوز کرنا جائز نہیں ۔[4] ((من قتل معاہدًا في غیر کنھہ حرم اللہ علیہ الجنۃن)) [5] ’’جس نے بلا وجہ کسی معاہد کو قتل کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت کو حرام کردیا۔‘‘ حد ود کے معا ملے میں عدلِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مدینہ منورہ میں ایک لڑکی یا لونڈی بالیاں پہنے ہوئے گھر سے باہر نکلی تو ایک یہودی نے اسے پتھر مارا۔ وہ لڑکی زخمی حالت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں