کتاب: محدث شمارہ 325 - صفحہ 100
خواتین کے لیے عدل کے حکم میں آتا ہے۔
غلاموں کے بارے میں حدیث میں ہے کہ صہیب رومی رضی اللہ عنہ کو بارگاہِ رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم میں وہی قرب حاصل تھا جو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو حاصل تھا۔ حضرت اُسامہ رضی اللہ عنہ امیرِ لشکر بنائے گئے جو بظاہر غلام زادہ تھے ،لیکن اسلام نے اُن کو وہ سربلندی عطا کی تھی کہ ان کی قیادت وامارت میں بڑے بڑے ذی حشم خاندان کے افراد اور عزت وسروری کے کلاہ کج سروں پر رکھنے والے قبائل کے افراد جو دولت ِ ایمان سے سربلندی حاصل کرچکے تھے، جوش ایمانی اور جذبۂ جہاد سے سرشار ان کو اپنا رہنمابنائے منزلِ مقصود کی طرف گامزن تھے۔ دنیا اس مساوات اور معاشرتی عدل کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلاموں کے بارے میں متعدد مرتبہ اِرشاد فرمایا:’’یہ تمہارے بھائی ہیں …
((فأطعموہ مما تأ کلون،واکسوہ مما تکتسون)) [1]
’’جو خود کھاؤ اُنہیں کھلاؤ،جوخود پہنو اُنہیں پہناؤ۔‘‘
عن أبي مسعود الأنصاري قال: کنت أضرب غلامًا لي فسمعت من خلفي صوتًا: اِعلم أبا مسعود))… فالتفتُّ فإذا ھو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقلت: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ھوحرٌّ لوجہ اللہ قال: ((أما [إنک] لو لم تفعل لَلَفَحَتْکَ النار)) [2]
’’حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ اپنے غلام کو مارے جارہے تھے۔ کسی نے پیچھے سے آواز دی جا ن لے ابومسعود! اُنہوں نے مڑکر دیکھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم تھے، عرض کی: میں نے اسے آزاد کردیا، فرمایا:’’اگر تم ایسا نہ کرتے تو دوزخ کی آگ تمھیں پکڑلیتی۔‘‘
عدلِ عائلی کے بارے میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا صدیقہ سے روایت ہے کہ مرض الموت کے آخری دِنوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ میرے گھر میں قیام کریں تو باقی ازواجِ مطہرات سے ایسا کرنے کی اجازت چاہی اور قیام فرمایا،[3]جو عدلِ عائلی کی نمایاں مثال ہے۔یہ الگ بات ہے کہ وصال کے دن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی باری ہی تھی۔
انصاف کرنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک مسلم اور غیرمسلم،اپنے اور بے گانے میں کوئی فرق