کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 98
ہی شرکا اس سے قطع نظر کرتے ہوئے کہ کسی خاص عقد میں ان کا سرمایہ استعمال ہوا ہے یا نہیں مشارکہ سے حاصل ہونے والے نفع میں حصہ دار ہوتے ہیں ۔ یہ بات خاص طور پر حنفیہ کے نزدیک زیادہ مؤثر ہے، کیونکہ ان کے یہاں مشارکہ کے جواز کے لئے یہ شرط نہیں ہے کہ تمام شرکا کے سرمایوں کو مخلوط کر دیا جائے۔‘‘
عمران اشرف صاحب کے اس جواب کا حاصل یہ ہے کہ مشارکہ میں یہ ضروری نہیں کہ ہر شریک صرف اپنے سرمایہ پر نفع حاصل کرے۔ شراکت کے بعد اگرچہ صرف ایک شریک کا سرمایہ استعمال ہوا ہو، لیکن نفع میں دیگر شرکا بھی شریک ہوتے ہیں ۔
عمران اشرف صاحب نے مشارکہ کا ضابطہ تو بتادیا لیکن وہ اس کا تجزیہ نہیں کر پائے کہ زید نے جب دس دن کے بعد اپنی رقم نکلوالی تو آیا شریعت کی نظر میں شراکت باقی بھی رہی یا نہیں ؟ ظاہر ہے کہ اس طرح سے تو شراکت ہی ختم ہو جاتی ہے خصوصاً جب کہ Sleeping partner (غیر عامل شریک) ہو اور وہ اپنا کل سرمایہ Active partner (عامل شریک) سے واپس لے لے۔ اگر کل سرمایہ واپس نہ لے نصف واپس نکلوا لے تب بھی سابقہ شراکت تو باطل ہو گئی کیونکہ سرمایوں کے نئے تناسب (ratio) سے نئے عقد کی ضرورت ہو گی۔
غرض عمران اشرف صاحب کے تمام دلائل بے بنیاد ہیں ۔ البتہ آخر میں وہ ایک اور دلیل دیتے ہیں جو آدمی کو غور کرنے پر مجبور کرتی ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ ایک جدید صورت ہے اور حدیث اَلْمُسْلِمُوْنَ عِنْدَ شُرُوْطِھِمْ کے تحت مسلمان اگر اس پر اتفاق کر لیں تو جب کہ کسی حرام کی تحلیل اور حلال کی تحریم لازم نہیں آتی، اس کے اختیار سے کوئی مانع نہیں ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
"In the proposed system, all the partners are treated at par. The profit of each partner is calculated on the basis of the period for joint pool. There is no doubt that the aggregate profits accrued to the pool is generated by the joint utillization of different amounts contributed by the participants at different times. Therefore, if all of them agree with mutual consent to distribute the profits on daily products basis, there is no injunction of shariah which makes it impermissible, rather it is