کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 97
معلوم نہیں ہوتی، کیونکہ فرض کریں مشارکہ کی کل مدت ایک سو دن ہے۔ مدت کے شروع ہی میں عمر نے پانچ ہزار اور بکر نے دس ہزار جمع کرائے اور پوری مدت میں کچھ رقم نہ نکلوائی۔ ان کے مقابلہ میں زید نے شروع میں پانچ ہزار جمع کرائے اور دس دن بعد وہ نکلوا لئے۔ آخر کے دس دنوں میں پانچ ہزار روپے پھر جمع کرا دیئے۔ ان سو دنوں کا کل سرمایہ ہوا … سولہ لاکھ یعنی عمر کے 5000 روپے x 100 دن =500000 ( 5 لاکھ ) اور بکر کے 1000 روپے x 100 دن =1000000 ( 10 لاکھ ) اور زید کے 5000 روپے x 20 دن =100000 ( 1 لاکھ ) 100 دن میں کل 16 لاکھ روپے استعمال میں رہے تو ایک دن میں 16 ہزار روپے استعمال میں رہے۔ اگر کل نفع 8000 روپے ہو تو یومیہ بنیاد کے حساب سے عمر کا نفع ہوا 25000 روپے اور بکر کا ہوا 5000 روپے اور زید کا ہوا 500 روپے۔ اب یہ ممکن ہے کہ 8000 روپے کا نفع درمیان کے انہی دنوں میں ہوا ہو اور شروع و آخر کے دس دس دنوں میں کچھ بھی نفع نہ ہوا ہو۔ زید کو بلاوجہ دوسروں کے سرمایوں پر ہونے والے نفع میں سے 500روپے مل گئے۔ ایسے ہی نقصان کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے۔ عمران اشرف صاحب اس اعتراض کا جواب یوں دیتے ہیں : "This argument can be refuted on the ground that it is not necessary in a musharakah that a partner should earn profit on his own money only. Once a musharakah pool comes into existence all the participants, regardless of whether their money is or is not utilized in a particular transaction earn the profits accruing to the joint pool. This is particulary true of the hanafi school, which does not deem it necessary for a valid musharakah that the monetary contribution of the partners are mixed up together. (Meezan Banks' guide. p.178) ’’ان علماء کی دی ہوئی دلیل کو اس بنیاد پر ردّ کیا جا سکتا ہے کہ مشارکہ میں یہ توضروری ہے ہی نہیں کہ شریک صرف اپنے سرمایہ پر نفع کمائے۔ جب ایک دفعہ مشارکہ طے ہو جاتا ہے تو تمام