کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 96
مقدار کا کچھ اندازہ ہو اور نہ ہی نفع کی کوئی شرح طے کریں ۔ غرض علامہ کاسانی رحمہ اللہ کی عبارت کو عمران اشرف صاحب اپنے حق میں لائیں ، یہ کسی طرح درست نہیں ہے۔
مزید برآں یومیہ بنیاد (Basis of daily products) پر عمران اشرف صاحب نے خود ہی ایک اور اعتراض نقل کیا ہے جو یہ ہے :
"Some contemporary scholars do not allow this method of calculating profits on the ground that it is just a conjectural method which does not reflect the actual profits really earned by a partner of the musharakah. Because the business may have earned huge profits during a period when a particular investor had no money invested in the business at all or had a very insignificant amount investsd, still, he will be treated at par with other investors who had huge amounts invested in the business during that period. Conversely, the business may have suffered a great loss during a period when a particular investor had huge amounts invested in it. Still, he will pass on some of his loss to other investors who had no investment in that period or their size of investment was insignificant.
’’چند ہم عصر علما نفع کی تعیین کے اس طریقے کو جائز نہیں سمجھتے، کیونکہ ان کے خیال میں یہ ایک محض تخمینی طریقہ ہے جس سے مشارکہ میں کسی شریک کا کمایا ہوا حقیقی نفع معلوم نہیں ہوتا۔ وجہ یہ ہے کہ یہ ممکن ہے کہ کاروبار میں بہت زیادہ نفع ان دنوں میں ہوا ہو، جب ایک شریک کا سرے سے یا تو سرمایہ ہی موجود نہ ہو یا ہو تو اتنا تھوڑا کہ قابل ذکر ہی نہ ہو۔ اس کے باوجود اس کو ان دوسرے شرکا کے برابر سمجھا جائے گا جنہوں نے اس مدت میں بہت بڑی مقدار میں سرمایہ لگایا ہو۔ اس کے برعکس صورت میں یہ ممکن ہے کہ کاروبار کا اس مدت میں بہت زیادہ نقصان ہوا ہو جب ایک شریک کا بہت زیادہ سرمایہ لگا ہو۔ اس کے باوجود اس کا کچھ نقصان ان دیگر شرکا کو منتقل کر دیا جائے گا جن کا اس مدت میں کچھ بھی سرمایہ نہ ہو یا ہو تو بہت تھوڑا جو ناقابل ذکر ہو۔‘‘
اس اعتراض کا حاصل یہ ہے کہ اس طریقے سے کسی شریک کے واقعی نفع کی صحیح مقدار