کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 95
ہمیں افسوس ہے کہ علامہ کاسانی رحمہ اللہ کی عبارت کا جو مطلب مولوی عمران اشرف صاحب نے بتایا ہے، ہم اس سے اتفاق نہیں کر سکے۔ علامہ کاسانی رحمہ اللہ کی عبارت یوں ہے:
ولنا أن الجھالۃ لا تمنع جواز العقد لعینھا بل لإفضائھا إلی المنازعۃ وجھالۃ رأس المال وقت العقد لا تفضي إلی المنازعۃ لأنہ یعلم مقدارہ ظاہرًا وغالبًا لأن الدراہم والدنانیر توزنان وقت الشراء فیعلم مقدارھا فلا یؤدي الی جھالۃ مقدار الربح وقت القسمۃ (بدائع الصنائع:۶/۶۳)
’’ہماری دلیل یہ ہے کہ جہالت بذاتِ خود عقد کے جواز کے مانع نہیں ہوتی بلکہ مُفضي إلی المنازعۃ ہونے کی وجہ سے مانع ہوتی ہے۔ اور عقد کے وقت راس المال کی مقدار کی جہالت مُفضي إلی المنازعۃ نہیں ،کیونکہ عام طور سے سامان کی خرید کے وقت چونکہ دراہم ودنانیر کو تولا جاتا ہے، اس لئے اس وقت اس کی مقدار معلوم ہو جاتی ہے لہٰذا نفع کی تقسیم کے وقت نفع کی مقدار بھی مجہول نہیں رہتی۔‘‘
علامہ کاسانی رحمہ اللہ کی مراد یہ ہے کہ عقد کے وقت سرمایہ کی مقدار کا تفصیلی علم ہونا شرط نہیں ۔ یہ کہناکہ عقد کے وقت مقدار کا اِجمالی علم بھی شرط نہیں ہے، بلا دلیل ہے۔ دیکھئے علامہ رحمہ اللہ خود فرماتے ہیں کہ خریداری کے وقت چونکہ دراہم و دنانیر کا وزن کیا جاتا ہے تو اس وقت ان کی مقدار کا علم جو کہ تفصیلی علم ہے، ہو جاتا ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ وہ دراہم و دنانیر ہیں جو عقد کے وقت سامنے رکھ دیئے گئے کہ ان کے ساتھ مشارکت ہو گی۔ غرض عقد کے وقت دراہم و دنانیر سامنے ہونے کی وجہ سے یا ان کی طرف اشارہ ہونے کی وجہ سے ان کی مقدار کا اجمالی علم تو ضرور ہوا جبکہ یومیہ بنیاد کے مسئلہ میں عقد کے وقت سرمایہ کی مقدار کا نہ تو اِجمالی علم ہے اور نہ تفصیلی علم ہے۔
آخر شرکت ِعنان بالا موال کی حقیقت یہی تو ہے کہ کم از کم دو فریق اپنے متعین سرمائے اس عقد میں متفق علیہ مدت تک کے لئے مخصوص کر لیں اور ان کی بنیاد پر (اور ضرورت ہو تو عمل کی وجہ سے بھی) اپنے لئے نفع کی شرح طے کریں ۔ علامہ کاسانی رحمہ اللہ کے دور میں یومیہ بنیاد (Basis of daily products) کا تو وجودہی نہیں تھا، لہٰذا کیسے سوچا جا سکتا ہے کہ ان کے دور میں دو آدمی آپس میں مشارکہ کا عقد تو کریں ، لیکن عقد کے وقت نہ تو ان کو سرمایہ کی