کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 94
the classical scholars of Islamic fiqh have different views about whether it is necessary for a valid Musharakah that the capital is pre-known to the partners. The Hanafi scholars are unaminous on the point that it is not a pre-condition. Al-kasani, the famous hanafi jurist writes:
"According to our hanafi school, it is not a condition for the validity of musharakah that the amount of capital is known, while it is a condition according to Imam Shafi. Our argument is that jahalah (uncertainty) in itself does not render a contract invalid, unless it leads to disputes. And the uncertainty in the capital at the time of musharakah does not lead to disputes, because it is generally known when the commodities are purchased for the musharakah, therefore it does not lead to uncertainty in the profit at the time of distribution." (Meezan Banks' guide: pp. 179-180)
’’لیکن مشارکہ کا مجوزہ رواں کھاتہ جس میں شریک روزانہ داخل اور خارج ہوتے رہتے ہیں کوئی بھی شریک اس میں متعین رقم جمع کرانے کی ذمہ داری نہیں لیتا ہے۔ اس لئے مشارکہ شروع کرنے کے وقت ہر شریک کے راس المال (سرمایہ) کی مقدار نامعلوم ہے جس کی وجہ سے مشارکہ فاسد ہو جانا چاہئے۔
مذکورہ بالا اعتراض کا جواب یہ ہے کہ فقہ اسلامی کے قدیم محققین کا اس بارے میں اختلافِ رائے ہے کہ مشارکہ کے جواز کے لئے آیا شرکا کے راس المال کا پہلے سے معلوم ہونا شرط ہے یا نہیں ؟ حنفی علما کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ شرط نہیں ہے۔ مشہور حنفی فقیہ علامہ کاسانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
ہمارے حنفیہ کے مطابق مشارکہ کے جواز کے لئے یہ کوئی شرط نہیں ہے کہ راس المال کی مقدار معلوم ہو، اگرچہ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک یہ شرط ہے۔ ہماری دلیل یہ ہے کہ جہالت بذاتِ خود عقد کے لئے موجب ِفساد نہیں ہوتی بلکہ صرف اسی وقت ہوتی ہے جب وہ نزاع کا باعث بنے۔ اور مشارکہ کے شروع میں راس المال کے بارے میں جہالت نزاع کا باعث نہیں ہوتی کیونکہ (مشارکہ کے تحت) جب سامان خریدا جاتا ہے تو اس کا علم ہو جاتا ہے لہٰذا نفع کی تقسیم میں وہ جہالت کا باعث نہیں ہوتی۔‘‘