کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 93
entitlement on daily product basis." (Meezan Banks' guide p(178) ’’بہت سے مالیاتی ادارے کسی کاروباری ادارے کے زیر گردش سرمایہ کو اس طریقے سے ترتیب دیتے ہیں کہ اس کا ایک رواں کھاتہ کھول دیتے ہیں جس میں سے عمیل مختلف اوقات میں مختلف رقمیں نکالتے ہیں اور ساتھ ہی فاضل سرمایہ جمع بھی کراتے رہتے ہیں ۔ غرض رقمیں جمع کرانے اور نکالنے کا عمل تاریخ انتہا تک چلتا رہتا ہے اور یومیہ بنیادوں پر سود کا حساب لگایا جاتا ہے۔ کیا ایسا معاملہ مشارکہ اور مرابحہ کی سرمایہ کاری میں بھی کیا جا سکتا ہے؟ اگر پارٹیوں کے درمیان ایسے معاملہ پر اتفاق ہو جائے تو اس سے مشارکہ کے کسی بنیادی ضابطہ کی مخالفت نہیں ہوتی۔ عملی طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ پارٹیوں نے اس قاعدہ و ضابطہ پر اتفاق کر لیا ہے کہ مشارکہ کے کھاتے میں مدت کے آخر میں جو نفع جمع ہو، وہ اس بنیاد پر تقسیم ہو گا کہ اوسطاً فی یوم کتنا سرمایہ استعمال ہوا ہے۔ اس سے فی یوم فی روپیہ حاصل ہونے والا نفع معلوم ہو گا جس کو ان ایام کے عدد سے ضرب دیں گے جن میں ہر سرمایہ کار نے اپنا سرمایہ کاروبار میں لگایا ہے۔ اس سے یومیہ بنیادوں پر نفع کی تعیین کی جا سکے گی۔‘‘ اس پر عمران اشرف صاحب نے پھر خود ہی ایک اعتراض وارد کر کے اس کا جواب دیا ہے۔ اعتراض یہ ہے کہ شراکت میں تو شریکوں کے راس المال کا علم ہوتا ہے جب کہ اس نظام میں کھاتہ دار رقمیں نکالتے اور جمع کراتے رہتے ہیں ، اس لئے مشارکہ میں داخل ہوتے وقت ان کے سرمایہ کی مقدار مجہول ہوتی ہے اور اس جہالت سے مشارکہ باطل ہو جاتا ہے۔ پھر اس کے جواب میں علامہ کاسانی رحمہ اللہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ جہالت مُفضي إلی النزاع (جھگڑے کا باعث) نہیں ہے، کیونکہ جب سامان خریدا جاتا ہے تو مقدار کا علم ہو ہی جاتا ہے۔ لکھتے ہیں : "But the proposed running account of musharakah where the partners are coming in and going out every day, nobody has undertaken to contribute any specific amount. Therefore the capital contributed by each partner is unknown at the time of entering into Musharakah which should render the musharakah invalid. The answer to the above objection is that