کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 90
ہوتی ہے جب کہ بعض بینکوں کے پاس فنانس کے لئے رقم کم ہوتی ہے تو جن بینکوں کو رقم کی ضرورت ہوتی ہے، وہ ان بینکوں سے قرضہ لیتے ہیں جن کے پاس رقم زائد ہوتی ہے۔ قرضہ دینے والا بینک ایک مخصوص شرحِ سود پر قرض دیتا ہے۔ اسے Inter Bank offered rate کہا جاتا ہے یعنی بینکوں کے باہمی معاملات میں پیش کیا گیا شرح سود۔ اس کا مخفف Ibor ہے۔ پاکستان میں عام طور پر کراچی کے بینکوں کا شرحِ سود بطورِ پیمانہ استعمال ہوتا ہے جسے کائبور یعنی Karachi Inter Bank Offered Rate کہتے ہیں ۔ اگر پاکستان میں اسلامی بینک کائبور کو چھوڑ کر کوئی اسلامی معیار بنانا چاہیں توظاہر ہے کہ اس کیلئے اسلامی بینکنگ کی ایک بڑی مارکیٹ کا وجود میں آنا ضروری ہے۔ الحمدللہ پاکستان میں بھی آہستہ آہستہ یہ مارکیٹ ترقی کر رہی ہے۔‘‘ (اسلامی بینکاری ایک حقیقت پسند جائزہ، ص ۵۴) 2. مالی جرمانہ وصول کیا جاتا ہے جو سود ہے مولوی عمران اشرف عثمانی صاحب ایک طرف یہ کہتے ہیں کہ بینک اگر کسی کے ساتھ مرابحہ کا معاملہ کرے تو اس کے بروقت ادائیگی نہ کرنے پر نہ تو قیمت میں تبدیلی کی جا سکتی ہے اور نہ ہی اس سے کوئی جرمانہ وصول کیا جا سکتا ہے، لیکن اس کے باوجود وہ بینک کے لئے یہ ہدایت بھی جاری کرتے ہیں کہ وہ گاہک جو ایک ماہ کی مہلت ملنے کے باوجود کسی معقول عذر کے بغیر جان بوجھ کر ادائیگی نہیں کرتا تو اس نے بینک کو جتنا نقصان پہنچایا ہے، اس کے تدارک کے لئے اس سے اتنی رقم وصول کی جائے۔ دیکھئے عمران اشرف عثمانی صاحب ایک طرف جرمانہ کے ناجائز ہونے کو لکھتے ہیں : Another issue with Murabahah is that if the client defaults in payment of the price at the due date, the price cannot be changed, nor can penalty fees be charged. ’’مرابحہ میں دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر گاہک مقرر تاریخ پر ادائیگی نہیں کرتا تو نہ تو قیمت تبدیل کی جا سکتی ہے اور نہ کوئی جرمانہ وصول کیا جا سکتا ہے۔‘‘ لیکن پھر دوسرے ہی لمحہ وہ یہ فیصلہ جاری فرماتے ہیں : "In order to deal with dishonest clients who default in payment deliberately,they should be made liable to pay